
پاکستان کی فوج کے ترجمان جمعے کو ایک اہم پریس کانفرنس کر رہے ہیں جس میں اہم علاقائی امور اور دہشت گردی پر بات ہو رہی ہے۔
فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں جن میں نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عمل درآمد نہ ہونا، دہشت گردی کے معاملے پر سیاست اور انڈیا کی مداخلت بھی شامل ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ ملک میں دہشت گردوں اور ان کی معاونت کرنے والوں کو اسپیس دی گئی جس کا عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نقصان ہوا۔
انہوں نے پانچ عوامل بیان کیے جس کی وجہ سے ان کے بقول دہشت گردی اب بھی موجود ہے۔
1۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہ ہونا
2۔ دہشت گردی کے معاملے پر سیاست کرنا اور قوم کو سیاست میں الجھانا
3۔ انڈیا کا افغانستان کو بیس کے طور پر استعمال کرنا
4۔ افغانستان میں دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں اور ہتھیاروں کی موجودگی
5۔ دہشت گردی اور جرائم گٹھ جوڑ ہے جسے سیاسی پشت پناہی حاصل ہے
'خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے پیچھے سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے'
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ گزشتہ تین ماہ میں شدت پسندی کے زیادہ تر واقعات خیبر پختونخوا میں ہوئے جہاں اس معاملے پر ’سیاست کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج بھی یہ آوازیں سنائی دیتی ہیں کہ دہشت گردوں سے بات کر لیں، کیا ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہے؟ ڈی جی آئی ایس پی آر کے بقول ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہوتا تو نہ کوئی جنگیں نہ ہوتیں، نہ پاکستان انڈیا کو مئی میں کیے گئے حملے کا جواب دیتا۔
فوج کے ترجمان کے مطابق دہشت گردوں کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر 40 انٹیلی جینس بیسڈ آپریشن کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے۔ گمراہ کن بیانیے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔
لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ 2014 اور 2021 میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ افغان مہاجرین کو واپس بھیجنا ہے۔ آج جب انہیں واپس بھیجا جا رہا ہے تو اس کی مخالفت کی جاتی ہے اور اس کے خلاف گمراہ کن بیانیے بنائے جاتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ افغان شہری پاکستان میں شدت پسندی میں ملوث ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ دوحہ معاہدے میں کہا گیا تھا کہ افغان سرزمین کو دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا تاہم امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں ہتھیار چھوڑے گئے جو شدت پسندوں کے پاس پہنچ گئے۔
ان کے بقول ’آرمی چیف یہ واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ پاکستانی فوج کے افسر و جوان، پولیس کے افسر، ہمارے ادارے اور بچے گورننس کے گیپ اپنے خون سے پورے کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے ایک ویڈیو دکھاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ کا افغانستان میں چھوڑا گیا اسلحہ دہشت گرد بھی استعمال کر رہے ہیں اور پاکستان میں مارے جانے والے خوارجیوں کے پاس بھی یہ اسلحہ ملا ہے۔
'دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے پاس تین راستے ہیں'
لیفٹننٹ جنرل احمد شریف کا کہنا تھا کسی فرد واحد کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ اپنی ذات اور مفاد کے لیے پاکستان اور خیبر پختونخوا کے عوام کے جان و مال کا سودا کرے۔ ان کے بقول ’اگر کوئی پارٹی یا شخص یہ سمجھتا ہے اس کی سیاست ریاست سے بڑی ہے تو پھر ہمیں یہ قبول نہیں۔‘انہوں نے مزید کہا کہ افواج پاکستان یہ امید کرتی ہیں کہ خیبر پختونخوا کے سیاست دان منفی سیاست، الزام تراشی اور خارجی کریمینل مافیا کی سہولت کاری کے بجائے اپنی بنیادی ذمے داری پر توجہ دیں گے۔ امید کرتے ہیں خیبر پختونخوا کے عوام کی سلامتی کے لیے افغانستان سے سیکیورٹی کی بھیک مانگنے کی بجائے اس صوبے کے ذمہ داران ہوتے ہوئے آپ خود اس کی حفاظت کریں گے۔
ترجمان پاکستان فوج نے کہا کہ ’خارجیوں کی سہولت کاری کرنے والوں کے پاس تین راستے ہیں۔ یا تو وہ خود ان خارجیوں کو ریاست کے حوالے کرے یا دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں ریاست کا ساتھ دے۔ ورنہ ریاست کے بھرپور ایکشن کے لیے تیار ہو جائیں۔‘
کابل میں حملوں اور نور ولی محسود کی ہلاکت کی خبروں پر ردعمل
کابل حملے میں نور ولی محسود کی ہلاکت سے متعلق پوچھے گئے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا اور میڈیا پر جو خبریں آئی ہیں ہم نے انہیں نوٹ کر لیا ہے۔
ترجمان نے ان خبروں کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’افغانستان ہمارا برادر پڑوسی ملک ہے۔ پاکستان نے چار دہائیوں سے زیادہ لاکھوں افغان پناہ گزین کی مہمان نوازی کی ہے۔
انہوں نے کہا ہم افغانستان سے ایک جائز مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کی آماج گاہ نہ بننے دیں اور دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم ان کے ساتھ بات چیت بھی کرتے ہیں اور انہیں وہاں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے بارے میں آگاہ بھی کرتے ہیں۔ ’افغان ٹرانزیٹ ٹریڈ بھی چل رہا ہے، ان سے ہماری تجارت جاری ہے۔ لوگ یہاں علاج کرانے آتے ہیں۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ افغان حکام کو بتایا گیا ہے کہ وہاں ٹی ٹی پی کے رہنما موجود ہیں اور یہ ان کے ٹھکانے ہیں۔ ’مگر پاکستان کے عوام کی جان و مال کی حفاظت اور علاقائی سالمیت کے لیے ہم جو بھی ضروری اقدام ہے وہ پہلے بھی لیتے تھے اور اب بھی لیں گے۔‘
اس جواب کے بعد ایک اور صحافی نے دوبارہ سوال کیا کہ میڈیا میں یہ خبریں آ رہی ہیں اور پاکستان پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ اس نے کابل میں چار مقامات پر اسٹرائیک کی ہے جس میں ٹی ٹی پی کے کمانڈر نور ولی محسود کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔
جس پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے پہلے کی گئی بات کو ہی دہرایا اور کہا کہ افغانستان دہشت گردی کے بیس کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ پاکستان کے عوام کے تحفظ کے لیے جو ضروری اقدامات کیے جانے چاہئیں وہ ہم کریں گے۔