
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی سے ہونے والے غزہ امن معاہدے کے بعد امریکا 200 رکنی فوجی دستہ مشرق وسطیٰ میں تعینات کرے گا تاکہ جنگ بندی کی نگرانی کی جا سکے۔
اے ایف پی کے مطابق امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ ایڈمرل بریڈ کوپر اس مشن کی قیادت کریں گے۔ رپورٹ کے مطابق ان فوجیوں کی ذمہ داری جنگ بندی کی نگرانی، مشاہدہ اور خلاف ورزیوں کو روکنا ہو گا۔
امریکی عہدیداروں نے صحافیوں سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس ٹیم میں مصر، قطر، ترکیہ اور ممکنہ طور پر متحدہ عرب امارات کے فوجی افسران بھی شامل ہوں گے۔ ایک دوسرے عہدیدار نے وضاحت کی کہ کسی بھی امریکی فوجی کا غزہ میں داخل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، یہ ٹیم صرف نگرانی اور ہم آہنگی کے لیے ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس خیال کے تحت یہ ٹیم بنائی گئی ہے کہ یہ ایک مشترکہ، تعاون پر مبنی ماحول میں کام کرے گی۔
عہدیداروں کے مطابق امریکی فوجیوں کو کہاں اور کس علاقے میں تعینات کیا جائے گا اس بارے میں ابھی تفصیلات جاری نہیں ہوئیں لیکن ان فوجیوں کو تعینات کرنے کا مقصد جوائنٹ کنٹرول سینٹر قائم کرنا ہے تاکہ غزہ میں کام کرنے والی دیگر سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر کام کریں تاکہ اسرائیلی افواج کے ساتھ تصادم سے بچا جا سکے۔
عہدیداروں نے کہا کہ امکان ہے کہ غزہ معاہدے پر عملدارآمد ہونے کے بعد علاقے میں کشیدگی کم ہوگی اور اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان مزید بات چیت اور تعلقات قائم کرنے کے مواقع ملیں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت میں ابراہیم معاہدے کرائے تھے، جن کے ذریعے اسرائیل نے بحرین، متحدہ عرب امارات، مراکش اور سوڈان کے ساتھ تعلقات بحال کیے تھے۔