ٹرمپ نے ایران پر مزید سخت پابندیاں لگا دیں

06:337/02/2025, جمعہ
جنرل7/02/2025, جمعہ
ویب ڈیسک
ایران کافی عرصے سے امریکہ کی جانب سے عائد پابندیوں مسترد کرتا آ رہا ہے۔
تصویر : سوشل میڈیا / فائل
ایران کافی عرصے سے امریکہ کی جانب سے عائد پابندیوں مسترد کرتا آ رہا ہے۔

امریکہ نے ایران پر نئی پابندیاں عائد کردی اور یہ پابندیاں ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد پہلی بار لگائی گئی ہیں، جس کا مقصد ایران پر ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی پالیسی کو دوبارہ نافذ کرنا ہے۔

امریکی محکمہ خزانہ نے جمعرات کے روز ان پابندیوں کا اعلان کیا اور کہا کہ ان پابندیوں کا ہدف ایران کا ’تیل کا نیٹ ورک‘ ہے۔

نئی پابندیاں ان کمپنیوں، بحری جہازوں اور افراد پر لگائی گئی ہیں جو پہلے سے ہی امریکی پابندیوں کا سامنا کرنے والی کمپنیوں سے منسلک ہیں۔ سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں بھی امریکہ ایسی ہی پابندیاں عائد کرتا رہا ہے تاکہ پہلے سے عائد پابندیوں کو مزید موٴثر طریقے سے نافذ کیا جا سکے۔

امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے ایک بیان میں کہا کہ ایران تیل کی آمدنی کو جوہری پروگرام، بیلسٹک میزائل اور ڈرونز پر لگا رہا ہے اور دہشتگرد گروپوں کی مدد کے لیے بھی استعمال کررہا ہے۔

ایران کافی عرصے سے امریکہ کی جانب سے عائد پابندیوں مسترد کرتا آ رہا ہے۔

امریکی محکمہ خزانہ نے وضاحت کی ہے کہ یہ پابندیاں مختلف ممالک میں موجود کمپنیوں اور افراد پر عائد کی گئی ہیں، ان میں چائنہ، انڈیا اور متحدہ عرب امارات بھی شامل ہیں۔

امریکہ کی جانب سے جمعرات کو لگائی گئی یہ نئی پابندیاں اس ایگزیکٹو آرڈر کے دو دن بعد لگائی گئی ہیں، جس پر ڈونلڈ ٹرمپ نے دستخط کیے تھے تاکہ ایران پر دوبارہ دباؤ بڑھایا جا سکے۔ یہ وہی پالیسی ہے جو انہوں نے اپنی پہلی صدارت کے دوران اپنائی تھی، خاص طور پر 2018 میں جب انہوں نے ایران کے ساتھ ہونے والے ایک بین الاقوامی معاہدے کو ختم کر دیا تھا۔

یاد رہے کہ جوہری معاہدہ (جوائنٹ کمری ہنسیو پلان آف ایکشن) ایران اور کچھ دوسرے ملکوں کے درمیان 2015 میں طے پایا تھا، جس میں ایران نے اپنی جوہری سرگرمیاں محدود کرنے کا وعدہ کیا تھا اور بدلے میں اس پر عائد اقتصادی پابندیاں ہٹا دی گئی تھیں۔

لیکن 2018 میں امریکہ نے اس معاہدے سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد ایران نے بھی اپنے وعدوں کو پورا کرنا کم کر دیا۔ اس کے بعد سے جوہری معاہدے کو دوبارہ بحال کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکی تھیں۔

جو بائیڈن نے اپنے دور اقتدار میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن ایران کے ساتھ ہونے والے مذاکرات ناکام رہے۔ پھر اکتوبر 2023 میں جب اسرائیل نے غزہ پر جنگ شروع کی، تو یہ سفارتی کوششیں مزید متاثر ہوئیں۔


’پابندیوں کے باوجود ایران کے ساتھ سفارتی بات چیت کا دروازہ کھلا ہے‘

اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر دباؤ بڑھانے کے لیے نئی پابندیاں عائد کی ہیں، لیکن وہ اب بھی سفارتی بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

منگل کے روز صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ایران ایک کامیاب اور ترقی یافتہ ملک بنے، لیکن اس صورت میں جب اس کے پاس جوہری ہتھیار نہ ہوں۔

ایرانی قیادت جوہری ہتھیار بنانے کی کوششوں کی تردید کرتی رہی ہے، تاہم، امریکی پابندیوں کے جواب میں ایران نے یورینیم کی افزودگی میں مسلسل اضافہ کیا ہے۔ یورینیم وہ ذخیرہ ہے جو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

پچھلے ہفتے ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے کہا تھا کہ اگر مغربی ممالک ثابت کریں کہ وہ ’سنجیدہ‘ ہیں تو ایران اپنے نیوکلر پروگرام کے بارے میں بات کرنے کو تیار ہے۔

ترجمان نے امید ظاہر کی کہ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے حوالے سے ’حقیقت پسندانہ رویہ‘ اپنائیں گے۔



یہ بھی پڑھیں:

#ایران
#امریکا
#جوہری پروگرام