
امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اُس قرارداد کو ویٹو کر دیا ہے جس میں اسرائیل اور حماس کے درمیان فوری، شرط کے بغیر اور مستقل جنگ بندی اور غزہ میں امدادی رسائی کو بغیر رکاوٹ جاری رکھنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
سلامتی کونسل کے باقی 14 ارکان نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، کیونکہ غزہ میں 20 لاکھ سے زائد آبادی انسانی بحران کا شکار ہے، جہاں قحط کے خطرات منڈلا رہے ہیں اور گزشتہ ماہ اسرائیل کی 11 ہفتوں کی ناکہ بندی ختم ہونے کے بعد بھی امداد بہت محدود پیمانے پر پہنچی ہے۔
اقوامِ متحدہ میں قائم مقام امریکی سفیر ڈوروتھی شییا نے ووٹنگ سے قبل کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’امریکہ واضح کر چکا ہے کہ ہم کسی ایسی قرارداد کی حمایت نہیں کریں گے جو حماس کی مذمت نہ کرے اور اسے ہتھیار ڈالنے اور غزہ چھوڑنے کا پابند نہ کرے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اس قرارداد سے امریکہ کی زیر قیادت جنگ بندی کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچے گا۔
امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی اور اسلحہ فراہم کرنے والا ملک ہے۔
یہ ووٹنگ ایسے وقت میں ہوئی ہے جب اسرائیل نے مارچ میں دو ماہ کی جنگ بندی کے بعد غزہ میں فوجی کارروائیاں دوبارہ شروع کر دی ہیں۔ غزہ کے طبی حکام کے مطابق بدھ کے روز اسرائیلی حملوں میں 45 افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایک اسرائیلی فوجی لڑائی میں ہلاک ہوا۔
اقوام متحدہ میں برطانیہ کی سفیر باربرا ووڈورڈ نے غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کے پھیلاؤ اور امداد کی شدید پابندیوں کو غیر منصفانہ، غیر متناسب اور نقصان دہ قرار دیا۔
اسرائیل نے غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی کے مطالبے کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حماس کا غزہ میں موجود رہنا ناقابل قبول ہے۔ اسرائیل کے اقوامِ متحدہ میں سفیر ڈینی ڈینن نے قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والے ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے بزدلی اور پسپائی کا راستہ چنا ہے۔ آپ نے وہ راستہ اختیار کیا ہے جو امن کی طرف نہیں بلکہ مزید دہشت گردی کی طرف لے جاتی ہے۔‘
حماس نے امریکی ویٹو کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ’امریکی حکومت کی اسرائیل کے لیے جانبداری‘ کو ظاہر کرتا ہے۔