15 سال بعد سفارتی تعلقات بحال، ڈھاکہ میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے خارجہ سیکریٹریز کا اجلاس

11:0617/04/2025, Perşembe
جنرل18/04/2025, Cuma
ویب ڈیسک
ا
ا

پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے پاکستان کی سیکریٹری خارجہ آمنہ بلوچ کی قیادت میں ایک وفد ڈھاکہ پہنچ چکا ہے۔ یہ ملاقات ’فارن آفس کنسلٹیشن‘ (ایف او سی) کے تحت ہو رہی ہے، جس میں دونوں ممالک کے درمیان تمام مسائل پر بات کی جائے گی۔

یہ ملاقات تقریباً 15 سال بعد دونوں ممالک کے خارجہ سیکریٹریز کے درمیان ہو رہی ہے اور اس سے دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے میں مدد ملنے کی توقع ہے۔

اس ملاقات کے بعد پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے بنگلہ دیش کے دورے کا امکان بھی ہے، جو 2012 کے بعد پاکستانی وزیر خارجہ کا بنگلہ دیش کا پہلا دورہ ہوگا۔

پاکستان کے بنگلہ دیش میں موجود ہائی کمشنر نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان بنگلہ دیش کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بڑھانے میں خاص دلچسپی رکھتا ہے۔


پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان برف پگھلنے لگی؟

ٹی آر ٹی گلوبل کی
کے مطابق جب پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف اور بنگلہ دیش کے نئے وزیراعظم محمد یونس نے عید الفطر کے موقع پر ایک دوسرے کو مبارکباد دی، تو یہ دونوں ممالک کے درمیان برف پگھلنے کا ایک اہم اشارہ تھا۔

چونکہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات پچھلے پچاس سال زیادہ تر کشیدگی اور دوریوں سے بھرے رہے ہیں، اس فون کال کو ایک نئی شروعات یا تعلقات میں بہتری کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ ایک علامت تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کچھ نرمی اور بہتری آ رہی ہے۔

1971 میں جب مشرقی پاکستان انڈیا کی مدد سے بنگلہ دیش بن گیا، اس واقعے نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات پر طویل عرصے تک منفی اثرات ڈالے اور دونوں ممالک کے درمیان سرد مہری رہی۔ تاہم حالیہ برسوں میں یہ سرد مہری کم ہوتی نظر آرہی ہے، خاص طور پر جب شیخ حسینہ واجد کو، جو بنگلہ دیش میں پاکستان مخالف بیانیے کو استعمال کررہی تھیں، اقتدار چھوڑنا پڑا۔ بڑے مظاہرے کی وجہ سے وہ ڈھاکا سے فرار ہو کر انڈیا میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئیں۔ اس کے بعد ایک نیا موقع آیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں بہتری دیکھنے کو مل رہی ہے۔

نوبیل انعام یافتہ اور مائیکروفنانس کے میدان میں اپنے کام کی وجہ سے مشہور محمد یونس بنگلہ دیش کی سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ سے بہت مختلف ہیں۔ انہوں نے گرامین بینک قائم کیا، جس کا ماڈل دنیا کے 100 سے زائد ترقی پذیر ممالک نے اپنایا اور جو آج عالمی جامعات میں بھی پڑھایا جاتا ہے۔

ملک میں سیاسی بحران کے دوران، صدر محمد شہاب الدین نے انہیں عبوری حکومت کی قیادت کی دعوت دی۔ ملک بھر میں طلبا کے مظاہروں کی قیادت کرنے والے رہنماؤں نے بھی متفقہ طور پر محمد یونس کو عبوری دور کی قیادت کے لیے منتخب کیا۔ وہ اگلے انتخابات (جو 2026 کے وسط تک متوقع ہیں) تک حکومت کی سربراہی کریں گے۔ ان کی قیادت میں پہلے ہی بنگلہ دیش کی معیشت میں بہتری کے آثار ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ شیخ حسینہ پاکستان کے خلاف جذبات کو ہوا دے کر سیاست کرتی تھیں۔ ان کی جماعت، عوامی لیگ، ہمیشہ 1971 کے واقعات اور پاکستان کے ساتھ پرانے تنازعات کو بار بار دہراتے تھے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق وہ مسلسل ماضی پر مرکوز رہیں اور یہ نہیں دیکھ سکیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے عوام میں کئی مشترک پہلو بھی ہیں۔

1947 میں آزادی کے بعد دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش ایک ہی ملک کے طور پر قائم رہے، بعدازاں 1971 میں دونوں علیحدہ ہوگئے۔ شیخ مجیب الرحمان، جو بنگلہ دیش کے بانی اور شیخ حسینہ کے والد تھے، اسی دورِ وحدت میں سیاسی طور پر نمایاں ہوئے۔

بہت سے بزرگ پاکستانیوں کو آج بھی وہ لمحہ یاد ہے جب شیخ مجیب 1974 میں لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں شریک ہوئے۔ یہ واقعہ نہ صرف تاریخی تھا بلکہ یہ اس بات کی علامت بھی تھا کہ پاکستان نے بنگلہ دیش کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے اور دونوں ممالک نے تعلقات کو دوبارہ معمول پر لانے کی کوششوں کا آغاز کیا۔ یہ ایک محتاط مگر مثبت قدم تھا، جو ماضی کی تلخیوں کے باوجود مستقبل کی طرف دیکھنے کی علامت سمجھا گیا۔

اگرچہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تاریخی اور مذہبی روابط موجود رہے، لیکن 1971 کے بعد ان تعلقات میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔ شیخ حسینہ اور ان کی جماعت عوامی لیگ نے اپنی سیاست کو علیحدگی کے دکھ اور تقسیم کی تلخیوں کے گرد گھمایا، جس کی وجہ سے دو طرفہ تعلقات رسمی گفتگو سے آگے نہیں بڑھ سکے۔

اب جبکہ محمد یونس جیسے عملی سوچ رکھنے والا رہنما اقتدار میں آئے ہیں تو یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ایک حقیقت پسندانہ اور مثبت راستے پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے بھی یہ محسوس ہو رہا ہے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر تعلقات میں بہتری لانا چاہتا ہے۔

پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان مفاہمت کا عمل آسان نہیں ہوگا۔ دونوں ممالک کی نئی نسلوں نے کبھی ایک ساتھ ایک ملک کے طور پر زندگی نہیں گزاری، اس لیے ’دوبارہ اتحاد‘ کی بات کرنا نہ صرف غیر حقیقت پسندانہ ہے بلکہ خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔

انڈیا، جو ان دونوں ممالک کے درمیان واقع ہے اور بنگلہ دیش کا ایک اہم اتحادی بھی ہے، کسی بھی ایسے اقدام کو مشکوک نظر سے دیکھے گا۔ تاہم اگر پاکستان اور بنگلہ دیش تجارتی تعلقات، سفارتکاری اور دیگر مشترکہ مفادات کی بنیاد پر تعلقات کو بہتر بنائیں، تو یہ انڈیا کے لیے تشویش کا باعث بنے بغیر ممکن ہو سکتا ہے۔


تجارت اور ثقافتی تعاون

پاکستان نے بنگلہ دیش کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سال 3 ارب ڈالر کی تجارتی حد مقرر کی ہے، جو موجودہ سطح سے چار گنا زیادہ ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں مزید بہتری آئی ہے۔ محمد یونس نے حالیہ بین الاقوامی فورمز پر پاکستانی وزیرِاعظم شہباز شریف سے کئی بار ملاقاتیں کی ہیں، جس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں استحکام آیا ہے۔

اس کے علاوہ دونوں ممالک کے فوجی تعلقات بھی مضبوط ہو رہے ہیں۔ جنوری میں بنگلہ دیش کا ایک اعلی سطحی وفد پاکستان آیا تھا اور فروری میں کراچی کے قریب ہونے والی ایک بحری مشق میں بنگلہ دیشی بحریہ نے بھی حصہ لیا، جس سے دونوں ممالک کے فوجی تعلقات میں مزید بہتری آئی ہے۔


#پاکستان بنگلہ دیش
#جنوبی ایشیا
#تجارت
#بنگلہ دیش