
کشمیری مزاحمتی گروپ جسے ’دی ریزسٹنس فرنٹ‘ بھی کہا جاتا ہے، نے بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں منگل کے روز سیاحوں پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ یہ انڈیا میں 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد سب سے خطرناک واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔
’دی ریزسٹنس فرنٹ‘ کیا ہے؟
’دی ریزسٹنس فرنٹ‘ 2019 میں سامنے آیا اور دہلی میں قائم تھنک ٹینک ’ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل‘ کے مطابق اسے پاکستان میں قائم کالعدم تنظیم لشکرِ طیبہ کا خفیہ گروپ سمجھا جاتا ہے۔
انڈین سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ ٹی آر ایف سوشل میڈیا اور آن لائن فورمز پر ’کشمیر ریزسٹنس‘ کے نام سے سرگرم ہے اور اسی نام سے اس نے پہلگام حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی۔
لشکرِ طیبہ کو امریکہ نے بھی ایک غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے، اس گروپ پر انڈیا اور مغرب ممالک میں متعدد حملوں کی منصوبہ بندی کا الزام ہے، جن میں نومبر 2008 کے ممبئی حملے بھی شامل ہیں۔
ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے سربراہ اجے ساہنی کے مطابق ٹی آر ایف دراصل لشکرِ طیبہ کا ایک دوسرا نام ہے۔ ایسے گروپ اس وقت بنائے گئے جب پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کا دباؤ تھا، اور وہ یہ دکھانا چاہتے تھے کہ ان کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔
ٹی آر ایف نے اب تک کیا کیا ہے؟
اجے ساہنی کے مطابق اس گروپ پر اس سے پہلے کسی بڑا حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ ’ٹی آر ایف کی تمام کارروائیاں دراصل لشکرِ طیبہ کی ہی کارروائیاں ہوتی ہیں۔ انہیں زمینی طور پر حملے کی جگہ کے انتخاب میں کچھ حد تک آزادی ہو سکتی ہے، مگر منظوری لشکرِ طیبہ ہی سے آتی ہے۔‘
انڈیا نے ٹی آر ایف کے بارے میں کیا کہتا ہے؟
انڈیا کی وزارتِ داخلہ نے 2023 میں پارلیمنٹ کو بتایا کہ یہ گروپ کشمیر میں سیکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کے قتل کی منصوبہ بندی میں ملوث رہا ہے۔
وزارت کے مطابق ٹی آر ایف سرحد پار سے اسلحہ، منشیات اور شدت پسندوں کی بھرتی کے معاملات میں بھی ملوث ہے۔
انٹیلی جنس حکام نے رائٹرز کو بتایا کہ ٹی آر ایف گزشتہ دو سال سے انڈیا نواز گروپوں کو آن لائن دھمکیاں بھی دیتا آ رہا ہے۔
پاکستان ٹی آر ایف کے بارے میں کیا کہتا ہے؟
پاکستان نے بار بار اس بات کی تردید کی ہے کہ وہ کشمیر میں شدت پسندوں کی مالی یا عسکری مدد کرتا ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ وہ کشمیریوں کو صرف اخلاقی اور سفارتی حمایت فراہم کرتا ہے۔