جوہری پروگرام پر تنازع شروع ہوا تو امریکی اڈوں پر حملہ کریں گے، ایران کی دھمکی

10:1812/06/2025, جمعرات
جنرل12/06/2025, جمعرات
ویب ڈیسک
AFP
ایرانی وزیر دفاع عزیز ناصرزادے نے بدھ کے روز کہا کہ اگر امریکہ نے ایران پر حملہ کیا تو ایران خطے میں موجود امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنائے گا۔
تصویر : ایکس / فائل
ایرانی وزیر دفاع عزیز ناصرزادے نے بدھ کے روز کہا کہ اگر امریکہ نے ایران پر حملہ کیا تو ایران خطے میں موجود امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنائے گا۔

عراق کے دارالحکومت بغداد میں امریکی سفارت خانے کے عملے اور ان کے اہلِ خانہ کو جلد وہاں سے انخلا کرنے کا حکم دے دیا گیا۔

ایران کے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ اگر امریکہ کے ساتھ تنازعہ شروع ہوا تو ایران خطے میں موجود امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنائے گا، جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے طے پانے کے حوالے سے اپنا اعتماد کھوتے جا رہے ہیں۔

واشنگٹن اور تہران کے درمیان اپریل سے اب تک پانچ بار بات چیت ہو چکی ہے، ٹرمپ ایسا معاہدہ چاہتے ہیں جس کے تحت ایران کی یورینیم افزودگی پر پابندیاں عائد کی جا سکیں۔ انہوں نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر معاہدہ نہ ہوا تو وہ ایران پر حملہ کر سکتے ہیں۔

ایرانی وزیر دفاع عزیز ناصرزادے نے بدھ کے روز کہا کہ اگر امریکہ نے ایران پر حملہ کیا تو ایران خطے میں موجود امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنائے گا۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق ناصرزادے نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’کچھ حکام دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو تصادم ہوگا۔ اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو خطے میں موجود تمام امریکی اڈے ہماری پہنچ میں ہیں اور ہم انہیں ان ممالک میں بغیر کسی خوف کے نشانہ بنائیں گے جہاں یہ موجود ہیں۔‘


عراق میں امریکی سفارت خانے کو ’سکیورٹی خدشات‘ کے باعث خالی کروانے کا فیصلہ

عراق نے بدھ کے روز سرکاری خبر رساں ایجنسی کو بتایا ہے کہ ’بغداد میں امریکی سفارت خانے کے عملے کو نکالنے کے لیے فی الحال کوئی سکیورٹی خدشات نظر نہیں آئے‘۔

اس سے قبل امریکی اور عراقی ذرائع نے بتایا تھا کہ واشنگٹن عراق میں موجود اپنے سفارت خانے سے جزوی انخلا کی تیاری کر رہا ہے، اور مشرق وسطیٰ کے مختلف علاقوں میں موجود امریکی فوجی اہلکاروں کے اہلِ خانہ کو وہاں سے نکلنے کی اجازت دی جا رہی ہے، کیونکہ خطے میں سکیورٹی خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ایرانی صدر مسعود پزشکیاں نے تہران کے مؤقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ ’ہم پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں اور سپریم لیڈر کا بھی یہی مؤقف ہے کہ ہم جوہری ہتھیار نہیں بنائیں گے۔ آپ چاہیں تو آ کر اس کی جانچ کر لیں، مگر ہم ایٹم بم نہیں بنائیں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا ’لیکن آپ کو کس نے یہ اجازت دی کہ آپ کہیں کہ ہمیں فلاں پر تحقیق کرنے کا حق نہیں؟ یہ کون ہوتے ہیں ہمیں بتانے والے کہ ہم تحقیق نہیں کر سکتے اور سب کچھ بند کر دیں؟ ہم ڈٹ کر کھڑے ہیں تاکہ کوئی ہم پر زور زبردستی نہ کر سکے۔‘

ایران اور امریکہ کے درمیان چھٹے مرحلے کی بات چیت اسی ہفتے متوقع ہے۔ صدر ٹرمپ کے مطابق یہ بات چیت جمعرات کو ہوگی، جبکہ تہران کا کہنا ہے کہ یہ مذاکرات اتوار کو عمان میں ہوں گے۔

ایران کا کامیاب میزائل تجربہ

مذاکرات میں ایک اور اہم رکاوٹ ایران کا میزائل پروگرام ہے، کیونکہ یہی میزائل کسی بھی جوہری ہتھیار کی ترسیل کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔

وزیر دفاع عزیز ناصرزادے نے بدھ کے روز بتایا کہ ایران نے گزشتہ ہفتے میزائل کا کامیاب تجربہ کیا ہے جو 2,000 کلوگرام وزنی وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ آیا یہ میزائل ’خرمشہر بیلسٹک میزائل‘ کا کوئی نیا ماڈل ہے — جو ایران کا طویل ترین فاصلے تک مار کرنے والا میزائل ہے اور 2000 کلومیٹر سے زائد سفر کر سکتا ہے — یا یہ کوئی نیا ڈیزائن تھا۔ مزید تفصیلات بھی فراہم نہیں کی گئیں۔

یاد رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت (2021-2017) میں امریکہ کو 2015 کے اُس معاہدے سے نکال لیا تھا جس کے تحت ایران نے یورینیم افزودگی پر پابندیاں قبول کی تھیں اور اس کے بدلے عالمی پابندیاں نرم کی گئی تھیں۔


#ایران
#ایران امریکا جوہری مذاکرات
#امریکا
#مشرق وسطیٰ