
ایران پر اسرائیلی حملوں نے عالمی سطح پر تشویش کی ایک لہر پیدا کر دی ہے۔
جہاں اسرائیل کے مغربی اتحادیوں اور خطے کے اہم ممالک نے ممکنہ وسیع تر تنازعے کے خدشے کے پیش نظر تحمل کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا ہے۔
خاص طور پر امریکہ اور برطانیہ جیسے قریبی اتحادیوں نے اسرائیلی کارروائی کی حمایت ظاہر نہیں کی ہے۔ ان دونوں ممالک نے سفارتکاری اور کشیدگی میں کمی پر زور دیا، جو کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو کے اس حملے کو اسرائیل کی تاریخ کا ’فیصلہ کن لمحہ‘ قرار دینے کے بیانیے سے مختلف ہے۔
ایران کے علاقائی حریف سمجھی جانے والے سعودی عرب نے بھی اسرائیل پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس حملے کی براہِ راست ذمہ داری اسرائیل پر عائد کی اور اسے ایران کی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا۔
امریکہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے ایران کو کئی مواقع دیے کہ وہ جوہری پروگرام پر معاہدہ کر لے، لیکن ایران نے ہر بار موقع ضائع کر دیا۔امریکہ اور ایران کے درمیان اس معاہدے پر بات چیت اتوار کو چھٹے دور میں داخل ہونے والی تھی۔
ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر لکھا کہ ‘میں نے انہیں انتہائی سخت الفاظ میں کہا کہ ’بس کر دو‘، لیکن جتنی بھی کوشش کی گئی، جتنا بھی قریب پہنچے، وہ معاہدہ مکمل نہ کر سکے۔‘
ٹرمپ نے کہا کہ ’اب بہت زیادہ خون خرابہ ہو چکا ہے، لیکن اگر ایران فوراً معاہدہ کر لے تو مزید تباہی روکی جا سکتی ہے۔‘
ٹرمپ نے مزید کہا کہ ’ایران کو فوراً معاہدہ کرلینا چاہیے، اس سے پہلے کہ کچھ باقی نہ بچے۔ اب مزید ہلاکتیں اور تباہی نہیں چاہتے، بس کر لو، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔‘
ٹرمپ اس سے قبل یہ کہہ چکے ہیں کہ انہیں اسرائیلی حملے کی پہلے سے معلومات تھیں، لیکن انہوں نے واضح کیا کہ امریکی فوج نے اس کارروائی میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
برطانیہ
برطانیہ کے وزیرِ اعظم کئیر سٹارمر نے کہا کہ ’ہم تمام فریقین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر پیچھے ہٹیں اور کشیدگی کم کریں۔ خطے میں کشیدگی کسی کے مفاد میں نہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں استحکام کو اولین ترجیح دی جانی چاہیے اور ہم کشیدگی میں کمی کے لیے اپنے شراکت داروں سے رابطے میں ہیں۔ یہ وقت تحمل، سکون اور سفارتکاری کی جانب واپسی کا ہے۔‘
دیگر مغربی اور ایشیا پیسیفک ممالک کے رہنماؤں نے بھی اسی نوعیت کے بیانات دیے، جن میں تحمل، کشیدگی میں کمی اور مذاکرات کی حمایت پر زور دیا گیا۔
آسٹریلیا
آسٹریلیا کی وزیرِ خارجہ پینی وونگ نے کہا کہ ’آسٹریلیا کو اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافے پر تشویش ہے۔ یہ اقدام ایک ایسے خطے کو مزید غیر مستحکم کر سکتا ہے جو پہلے ہی نازک صورتحال سے دوچار ہے۔ ہم تمام فریقین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایسے اقدامات اور بیانات سے گریز کریں جو کشیدگی کو مزید ہوا دیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم سب اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ایران کے جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگرام عالمی امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہیں اور ہم تمام فریقین پر زور دیتے ہیں کہ وہ مذاکرات اور سفارتکاری کو ترجیح دیں۔‘
نیوزی لینڈ
نیوزی لینڈ کے وزیرِ اعظم کرسٹوفر لکسن نے کہا کہ اسرائیل کا حملہ خوش آئند نہیں ہے اور ایسی کارروائیوں میں غلط فہمی کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔
جاپان
جاپان کے وزیرِ خارجہ تاکیشی ایوایا نے اس معاملے پر سخت ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’جب ایران کے جوہری مسئلے کے پرامن حل کے لیے امریکہ اور ایران سمیت دیگر ممالک سفارتی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں، ایسے میں فوجی طاقت کا استعمال انتہائی افسوسناک ہے۔ جاپانی حکومت اس کارروائی کی سخت مذمت کرتی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی میں اضافے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم خطے میں کسی بھی قسم کی فوجی کشیدگی کی مخالفت کرتے ہیں۔ خاص طور پر ایران میں جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں‘۔
عمان
عمان، جو ایران اور امریکا کے درمیان جوہری مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے، نے اسرائیلی حملے کو ’خطرناک‘ اور ’غیر ذمہ دارانہ‘ اقدام قرار دیا ہے۔
عمانی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’عمان اس کارروائی کو ایک خطرناک اور غیر ذمہ دارانہ اشتعال انگیزی سمجھتا ہے، جو اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس طرح کا جارحانہ اور مسلسل رویہ ناقابل قبول ہے اور خطے کے امن و استحکام کو مزید نقصان پہنچاتا ہے۔
سعودی عرب
سعودی عرب نے ایران کے ساتھ 2023 میں تعلقات بحال کیے تھے اور اب بھی وہ اپنے پرامن اور مصالحت والے رویے پر قائم ہے۔
سعودی عرب نے اسرائیل کے ایران پر حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔
سعودی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’مملکت سعودی عرب برادر اسلامی جمہوریہ ایران پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت اور ان کی مخالفت کرتی ہے۔ یہ حملے ایران کی خودمختاری کی خلاف ورزی اور بین الاقوامی قوانین و اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔‘
وزارت نے مزید کہا کہ ’اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ فوری طور پر اسرائیلی جارحیت کو روکے۔‘
قطر
قطر نے اسرائیلی حملے کو ’خطرناک اضافہ‘ قرار دیتے ہوئے اس پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان اسرائیلی خلاف ورزیوں کو فوری طور پر روکے۔
قطری وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’ریاست قطر ایران کی سرزمین کو نشانہ بنانے والے اسرائیلی حملے کی شدید مذمت اور مخالفت کرتی ہے اور اسے ایران کی خودمختاری اور سلامتی کی کھلی خلاف ورزی اور بین الاقوامی قوانین و اصولوں کی خلاف ورزی سمجھتی ہے۔‘
پاکستان
پاکستان نے ایران پر اسرائیلی حملوں کو ’غیر منصفانہ‘ قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی ہے۔
وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’ایران پر اسرائیل کے غیر منصفانہ حملوں کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ پاکستان، جو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا، ایران کی حکومت اور عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔‘
دفتر خارجہ نے بعد میں اپنے بیان میں کہا کہ ’یہ اسرائیلی حملے نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی امن، سلامتی اور استحکام کے لیے ایک سنگین خطرہ ہیں۔‘
چائنہ
چائنہ نے ایران پر اسرائیلی حملوں کے ممکنہ سنگین نتائج پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان لن جیان نے جمعے کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چائنہ صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور تمام فریقین سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ایسے اقدامات سے گریز کریں جو بحران کو مزید بھڑکا سکتے ہیں۔
لن جیان نے کہا کہ ’چائنہ ان کارروائیوں کے ممکنہ سنگین نتائج پر گہری تشویش رکھتا ہے اور متعلقہ فریقوں پر زور دیتا ہے کہ وہ کشیدگی میں مزید اضافے سے گریز کریں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’چین صورتحال کو ٹھنڈا کرنے میں تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔‘
روس
روس نے اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملوں کو مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کا ’خطرناک اضافہ‘ قرار دیتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
روسی سرکاری میڈیا کے مطابق کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا:
’روس کو اس شدید کشیدگی پر گہری تشویش ہے اور ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔‘
پیسکوف نے مزید کہا کہ یہ صورت حال مشرقِ وسطیٰ میں استحکام کے لیے نقصان دہ ہے اور تمام فریقین کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے۔
ترکیہ
ترکیہ نے ایران پر حملوں کے بعد اسرائیل سے ’جارحانہ کارروائیاں‘ بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
ترکیہ نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ ایران پر حملوں کا سلسلہ فوری طور پر روکے، یاد رہے کہ یہ حملے ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب ایران کے متنازع جوہری پروگرام پر مذاکرات جاری ہیں۔
ترک وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’اسرائیل کو اپنی جارحانہ کارروائیاں فوراً بند کر دینی چاہئیں کیونکہ یہ اقدامات مزید تنازعات کو جنم دے سکتے ہیں۔‘