
ہزاروں ایکٹوسٹ دنیا بھر سے غزہ کی جانب مارچ کر رہے ہیں تاکہ اسرائیلی محاصرے کو توڑا جا سکے اور وہاں جاری نسل کشی کی طرف عالمی توجہ مبذول کروائی جا سکے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اس قافلے کو ’صمود قافلہ‘ کا نام دیا گیا ہے، صمود عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ثابت قدمی یا مذاحمت کے ہیں۔
تقریباً ایک ہزار افراد پر مشتمل ’صمود قافلہ‘ پیر کو تیونس سے شروع ہوا اور منگل کی صبح لیبیا پہنچا۔ یہ قافلہ پیر کے روز تیونس کے دارالحکومت سے روانہ ہوا تھا۔ طویل سفر کے بعد قافلے کے شرکا اس وقت لیبیا میں آرام کر رہے ہیں، تاہم اب تک انہیں ملک کے مشرقی حصے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ملی۔
قافلے میں زیادہ تر لوگ شمال مغربی افریقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ جیسے جیسے یہ مختلف ملکوں سے گزرتا ہوا مصر اور غزہ کے درمیان رفح بارڈر کی طرف جائے گا، راستے میں اور لوگ بھی اس میں شامل ہوتے جائیں گے۔
وہ یہ سب کیسے کریں گے؟ وہ وہاں کب پہنچیں گے؟ آئیے جانتے ہیں:
قافلے میں کون کون شامل ہے؟
فلسطین کے لیے مشترکہ کارروائی کی تنظیم کوآرڈینیشن آف جوائنٹ ایکشن فار فلسطین ’صمود قافلہ‘ کی قیادت کر رہی ہے، جو کہ ’گلوبل مارچ فار فلسطین‘ کا حصہ ہے۔
مجموعی طور پر تقریباً ایک ہزار لوگ 9 بسوں پر مشتمل اس قافلے کا حصہ ہیں، جن کا مقصد عالمی رہنماؤں پر دباؤ ڈالنا ہے تاکہ وہ غزہ کے مسئلے پر عملی اقدام کریں۔
اس قافلے کو تیونس کی جنرل لیبر یونین، نیشنل بار ایسوسی ایشن، تیونسی لیگ برائے انسانی حقوق، اور تیونسی فورم برائے معاشی و سماجی حقوق کی حمایت حاصل ہے۔
یہ قافلہ 50 ممالک کے ایکٹوسٹ اور افراد کے ساتھ رابطے میں ہے، جو 12 جون کو مصر کے دارالحکومت قاہرہ پہنچیں گے، تاکہ سب مل کر رفح بارڈر کی طرف مارچ کر سکیں۔
ان کارکنوں میں کچھ لوگ ایسی تنظیموں سے وابستہ ہیں جو عوامی سطح پر کام کرتی ہیں، جیسے فلسطینی یوتھ موومنٹ، امریکہ کی امن کی حامی خواتین کی تنظیم ’کوڈ پنک‘ اور برطانیہ کی ’جیوئش وائس فار لیبر‘۔
رفح بارڈر تک کیسے پہنچیں گے؟
گاڑیوں اور بسوں پر مشتمل قافلہ اس وقت لیبیا پہنچ چکا ہے۔ تھوڑی دیر آرام کے بعد یہ قافلہ قاہرہ کی طرف روانہ ہوگا۔
تیونسی صحافی غیا بن مبارک لیبیا میں داخل ہونے سے پہلے قافلے میں شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے وہ ایک صحافی ہونے کے ناطے اس یقین کے تحت مارچ کر رہی ہیں کہ ’انہیں تاریخ کے درست جانب کھڑا ہونا ہے، نسل کشی کو روکنا ہے اور بھوک سے مرنے والے لوگوں کو بچانا ہے۔‘
جب قاہرہ میں دیگر ایکٹوسٹ ’صمود قافلہ‘ میں شامل ہوں گے، تو وہ مصر کے سینائی علاقے میں ’العریش‘ کی طرف روانہ ہوں گے اور وہاں سے غزہ کے رفح بارڈر کی طرف تین دن کا پیدل مارچ کریں گے۔
کیا کارکنوں کو رکاوٹیں کا سامنا کرنا پڑے گا؟
ابھی تک قافلے کو مشرقی لیبیا سے گزرنے کی اجازت نہیں ملی۔ لیبیا میں دو الگ الگ حکومتیں ہیں۔ قافلے کا مغربی لیبیا میں خیرمقدم کیا گیا ہے، لیکن مشرقی حصے کی حکومت سے اجازت لینے کی بات چیت ابھی جاری ہے۔
کارکنوں نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا تھا کہ انہیں غزہ میں داخلے کی اجازت ملنے کی امید نہیں، لیکن وہ چاہتے ہیں کہ ان کا یہ سفر عالمی رہنماؤں پر دباؤ ڈالے تاکہ وہ اسرائیل کو نسل کشی پر مبنی جنگ روکنے پر مجبور کریں۔
ایک اور بڑی رکاوٹ مصر میں ہے، جہاں العریش سے رفح بارڈر تک کا علاقہ فوجی زون قرار دیا گیا ہے اور وہاں صرف وہی لوگ داخل ہو سکتے ہیں جو اس علاقے کے رہائشی ہوں۔
مصری حکومت نے اب تک یہ نہیں بتایا کہ آیا وہ گلوبل مارچ کو اپنی سرزمین سے گزرنے دے گی یا نہیں۔
ایک تجزیہ کار نے الجزیرہ کو بتایا کہ انہیں لگتا ہے کہ مارچ کے شرکا کو رفح جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہاں ہمیشہ قومی سلامتی کو ترجیح دی جاتی ہے۔‘
اگر قافلہ رفح بارڈر تک پہنچ بھی جاتا ہے، تو وہاں اسے اسرائیلی فوج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کارکنوں نے یہ راستہ کیوں چُنا؟
فلسطین کے حامیوں کا کہنا ہے کہ غزہ کے عوام کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کریں گے۔
گزشتہ 20 مہینوں سے اسرائیل کی نسل کشی پر مبنی جنگ جاری ہے، جس کے خلاف دنیا بھر کے بڑے شہروں میں احتجاج ہوئے اور کئی افراد نے اپنے ملکوں کے منتخب نمائندوں کے خلاف قانونی کارروائیاں کیں۔
کارکنوں نے کئی بار انسانی امداد کے بحری جہازوں کے ذریعے غزہ جانے کی کوشش کی تاکہ 2007 سے لگے اسرائیلی محاصرے کو توڑا جا سکے، لیکن تمام جہازوں کو یا تو روکا گیا یا ان پر حملہ کیا گیا۔
2010 میں ’فریڈم فلوٹیلا‘ کے چھ جہازوں میں سے ایک ’ماوی مرمرہ‘ جب بین الاقوامی پانیوں میں تھا، تو اسرائیلی فوج نے اس پر حملہ کر دیا۔ اس حملے میں نو لوگ مارے گئے اور ایک شخص بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔
جب غزہ پر اسرائیل کے حملے جاری رہے، تو ’فریڈم فلوٹیلا‘ قافلہ بھی اپنی کوششیں جاری رکھی۔
اسرائیل کی موجودہ جنگ کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے ’فریڈم فلوٹیلا کوالیشن‘ سے تعلق رکھنے والے 12 کارکن 1 جون کو اٹلی سے ’میڈلین‘ نامی کشتی پر روانہ ہوئے، تاکہ عالمی حکومتوں پر دباؤ ڈالا جا سکے کہ وہ اسرائیل کی نسل کشی کو روکیں۔
تاہم 9 جون کو اسرائیلی فورسز نے بین الاقوامی پانیوں میں ان کارکنوں کو ’زبردستی اغوا‘ کر لیا۔
کیا ’گلوبل مارچ برائے غزہ‘ کامیاب ہوگا؟
ایکٹوسٹ کا کہنا ہے کہ وہ غزہ جانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ خاموش رہنے سے اسرائیل کو مزید ظلم اور نسل کشی جاری رکھنے کا موقع ملے گا، یہاں تک کہ غزہ کے تمام لوگ یا تو مارے جائیں گے یا وہاں سے نکال دیے جائیں گے۔