
امریکی میڈیا کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیل آئندہ چند دنوں میں ایران پر حملہ کرنے کی تیاری کررہا ہے اور ممکنہ طور پر یہ اقدام امریکہ کی حمایت کے بغیر کیا جائے گا۔
سکائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق یہ اطلاعات ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ایران کے درمیان جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے حوالے سے ایک سفارتی معاہدے پر بات چیت کے حتمی مراحل میں ہے۔
سکائی نیوز کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ اسرائیل مبینہ طور پر ایران پر یکطرفہ حملے کے حوالے سے زیادہ سنجیدہ ہو گیا ہے، کیونکہ واشنگٹن اور تہران ایک ایسے معاہدے کے قریب پہنچ گئے ہیں جس میں ایران کو کچھ حد تک یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
اسرائیل اسے ناقابل قبول قرار دیتا ہے۔
امریکی چینل این بی سی نیوز کے مطابق وزیراعظم نیتن یاہو کی حکومت ایران پر حملے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔
یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اقوامِ متحدہ کے جوہری نگران ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے باضابطہ طور پر کہا ہے کہ ایران 20 سال بعد پہلی بار اپنے جوہری وعدوں پر عمل نہیں کر رہا۔
ایران پر اسرائیلی حملہ کرنا ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی کے خلاف ہوگا، کیونکہ امریکہ نے ہمیشہ ایسے کسی اقدام کی مخالفت کی ہے۔
ایک سینئر ایرانی عہدیدار نے جمعرات کو کہا کہ خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باوجود ایران یورینیم افزودگی کو اپنا حق سمجھتا ہے اور امریکی دباؤ کے باوجود وہ اس پروگرام کو ختم نہیں کرے گا۔
مشرق وسطیٰ میں ایک نیا محاذ کھلنے کے خدشے کے پیشِ نظر، ٹرمپ انتظامیہ نے اُن تمام امریکی سفارتخانوں کو — جو ایرانی میزائلوں، طیاروں یا دیگر عسکری وسائل کی رینج میں آتے ہیں — ہدایت دی ہے کہ وہ امریکہ اور اس کے انفرااسٹرکچر کو لاحق ممکنہ خطرات سے متعلق اپنی رپورٹس فوری طور پر بھیجیں۔
ایک امریکی اہلکار کے مطابق وائٹ ہاؤس نے ابھی تک اس صورتحال پر سینئر سیاست دانوں کو بریف نہیں کیا۔
یہ رپورٹس اُس وقت سامنے آئی ہیں جب امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ اس نے عراق کے دارالحکومت بغداد میں قائم امریکی سفارتخانے سے تمام غیر ضروری عملے کی واپسی کا حکم دے دیا ہے، کیونکہ خطے میں بدامنی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
البتہ امریکی حکام نے اس اعلان کے دوران اسرائیل کی جانب سے ایران پر ممکنہ حملے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔