
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو اس وقت دو بڑے بحران کا سامنا کر رہے ہیں: ایک جانب غزہ میں طویل جنگ، تو دوسری جانب انہیں اپنے ہی ملک میں سخت سیاسی دباؤ اور مخالفت کا سامنا ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فضائیہ نے تہران میں ایران کے جوہری اور میزائل ٹھکانوں پر حملے کیے، جن میں ایرانی فوج کے سینئر حکام اور چھ ایٹمی سائنسدان ہلاک ہوئے۔
اسرائیل نے 200 جنگی طیاروں کی مدد سے 100 ایرانی مقامات کو نشانہ بنایا جسے نیتن یاہو نے ایران کے ’ممکنہ جوہری خطرے‘ کے خلاف پیشگی دفاعی اقدام قرار دیا ہے۔
جواب میں ایران نے مبینہ طور پر اسرائیل کی جانب 100 سے زائد ڈرونز داغے، جس کے بعد اسرائیل، ایران، عراق اور اردن نے اپنی فضائی حدود بند کر دی ہیں۔
ٹی آر ٹی ورلڈ کے مطابق حال ہی میں پارلیمنٹ میں ایک قرارداد پیش کی گئی تھی جس کا مقصد موجودہ اسرائیلی حکومت کو ختم کرنا تھا۔ یہ قرارداد صرف 8 ووٹوں سے ناکام ہوئی—یعنی حکومت کو بچانے کے لیے 61 ووٹ پڑے جبکہ حکومت ختم کرنے کے حق میں 53 ووٹ آئے۔
یہ صورتحال اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ حکومت میں شامل جماعتوں کے درمیان فوجی بھرتی سے متعلق ایک متنازعہ قانون پر اختلافات بڑھ گئے ہیں۔ اس قانون میں قدامت پسند (الٹرا آرتھوڈوکس) یہودیوں کو لازمی فوجی سروس سے چھوٹ دینے کی بات کی گئی ہے، جو کئی پارٹیوں کے لیے ایک حساس اور متنازع معاملہ ہے۔
حکومت میں شامل بعض جماعتوں کی ممکنہ بغاوت نے قبل از وقت انتخابات کا خدشہ پیدا کر دیا تھا۔ تاہم خارجہ امور و دفاعی کمیٹی کے چیئرمین یولی ایڈلسٹین نے آخری لمحات میں الٹرا آرتھوڈوکس جماعتوں سے ایک نیا مسودۂ قانون طے کر کے معاہدہ کرا دیا، اس معاہدے کے بعد سخت گیر دائیں بازو کے قانون سازوں کو بھی قائل کیا گیا کہ وہ کنیسٹ (ٓسرائیلی پارلیمنٹ) کو تحلیل کرنے کے حق میں ووٹ نہ دیں۔
ناقدین کا مؤقف ہے کہ نیتن یاہو کا ایران کے خلاف جارحانہ رویہ سیاسی مقاصد کے تحت اختیار کیا گیا ہے، تاکہ وہ اندرونی سیاسی دباؤ کے دوران اپنی پوزیشن کو مضبوط بنا سکیں۔
ایران پر حملے نے غزہ میں جاری انسانی بحران سے عالمی توجہ ہٹا دی ہے، جہاں اب تک 55 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں اور صورت حال ابھی بھی سنگین ہے۔
اس حکمتِ عملی نے وقتی طور پر کچھ بین الاقوامی اتحادیوں کی حمایت ضرور حاصل کی ہے، مگر اس سے مشرق وسطیٰ کی صورتحال مزید غیر مستحکم ہونے کا بھی خطرہ ہے۔
سیاسی بقا کی جنگ
نیتن یاہو کئی دہائیوں سے اسرائیلی سیاست پر چھائے رہے ہیں اور 2022 میں چھٹی بار وزیر اعظم منتخب ہو کر ملک کی تاریخ کے سب سے طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والے رہنما بن گئے۔ لیکن اب جب وہ 75 برس کے ہو چکے ہیں، ان کے پاس اپنا سیاسی قیادت بچانے کا وقت کم رہ گیا ہے۔
2023 میں حماس کے حملے نے ان کی قیادت کو شدید نقصان پہنچایا۔ عوامی رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق زیادہ تر اسرائیلی شہری اس حملے کے لیے نیتن یاہو کو سکیورٹی ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
اس کے بعد نیتن یاہو کو بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی جانب سے ممکنہ جنگی جرائم کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ نیتن یاہو ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔
ادھر تازہ ترین جائزوں کے مطابق اکثر اسرائیلی عوام یہ سمجھتے ہیں کہ غزہ میں جنگ ضرورت سے زیادہ طویل ہو چکی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو اس جنگ کو طول دے کر جان بوجھ کر انتخابات کو مؤخر کر رہے ہیں، کیونکہ سروے ظاہر کرتے ہیں کہ اگر آج انتخابات ہوں تو وہ ہار سکتے ہیں۔
اس وقت نیتن یاہو کو کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک طرف اسرائیل مختلف محاذوں پر جنگ میں مصروف ہے، تو دوسری جانب نیتن یاہو خود طویل عرصے سے جاری کرپشن کے مقدمے میں عدالتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ لیکن اس مقدمے نے ان کی ساکھ کو اندرونِ ملک نقصان پہنچایا ہے۔
اس سب کے باوجود نیتن یاہو کو امید ہے کہ ایران کے خلاف ایک کامیاب فوجی کارروائی ان کا نام تاریخ میں محفوظ کر دے گی۔ تاہم جیسے جیسے یہ بحران شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں، آنے والے دن ان کے سیاسی مستقبل کے لیے فیصلہ کن ہوں گے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا ان کے اقدامات انہیں اقتدار میں برقرار رکھیں گے یا پورے مشرقِ وسطیٰ کو ایک اور خطرناک تصادم کی طرف لے جائیں گے۔