مقناطیسی بم سے میزائل تک: اسرائیلی حملوں میں ایران کے ایٹمی سائنسدانوں کی ہلاکت کی تاریخ

13:0313/06/2025, جمعہ
جنرل13/06/2025, جمعہ
ویب ڈیسک
تہران میں اسرائیلی حملوں کے بعد مظاہرین نے ان ایٹمی سائنسدانوں اور فوجی افسران کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں جو ہلاک ہوئے۔
تصویر : تصویر / ای پی اے
تہران میں اسرائیلی حملوں کے بعد مظاہرین نے ان ایٹمی سائنسدانوں اور فوجی افسران کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں جو ہلاک ہوئے۔

اسرائیل نے 200 سے زیادہ لڑاکا طیاروں کے ذریعے ایران کے 100 سے زیادہ مقامات کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں چھ ایرانی ایٹمی سائنسدانوں سمیت 20 ایرانی سینئر عہدیدار ہلاک ہوچکے ہیں۔

تل ابیب کا دعویٰ ہے کہ ایران ایٹم بم بنا رہا ہے، تاہم تہران اس بات کی تردید کرتا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران کئی ایرانی نیوکلیئر سائنسدان ایسے حملوں میں مارے جا چکے ہیں جنہیں عام طور پر اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی کارروائیاں سمجھا جاتا ہے۔ تاہم اسرائیل شاذ و نادر ہی ان حملوں میں اپنی مداخلت کی تصدیق کرتا ہے۔

یہاں حالیہ برسوں میں اسرائیل کی جانب سے مبینہ طور پر کیے گئے ایرانی نیوکلیئر سائنسدانوں کے ہائی پروفائل قتل کی ایک ٹائم لائن پیش کی جا رہی ہے۔

جنوری 2007: اردشیر حسین پور

اردشیر حسین پور ایک نیوکلیئر فزکس کے ماہر اور شیراز یونیورسٹی اور مالک اشتر یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے لیکچرار تھے۔ وہ الیکٹرو میگنیٹزم کے ماہر اور اصفہان نیوکلیئر ٹیکنالوجی سینٹر میں ایران کے جوہری تحقیقاتی پروگرام کے ایک اہم رکن تھے۔

ابتدائی رپورٹس میں کہا گیا کہ ان کی موت ’گیس لیک‘ کے باعث دم گھٹنے سے ہوئی، تاہم ایرانی انٹیلیجنس کا دعویٰ تھا کہ حسین پور کو اسرائیل نے قتل کیا۔

امریکی نجی انٹیلیجنس اور تحقیقاتی ادارے اسٹریٹفور نے بھی فروری 2007 کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ حسین پور کو اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے ہلاک کیا۔

جنوری 2010: مسعود علی محمدی

مسعود علی محمدی تہران یونیورسٹی میں فزکس کے پروفیسر تھے اور نیوکلیئر سائنسدان ہونے کے ساتھ ساتھ پارٹیکل فزکس اور کوانٹم فیلڈ کے ماہر تھے۔ وہ ایک ایسے نیوکلیئر تحقیقاتی پروگرام سے وابستہ تھے جس کا تعلق ایرانی پاسدارانِ انقلاب سے تھا۔

انہیں اس وقت قتل کیا گیا جب ان کی گاڑی کے قریب کھڑی ایک موٹر سائیکل میں نصب ریموٹ کنٹرول بم سے دھماکہ کیا گیا۔ یہ واقعہ ان کے تہران کے گھر کے باہر پیش آیا۔ دھماکے سے ان کی رہائشی عمارت کی کھڑکیاں ٹوٹ گئیں اور دو راہگیر بھی زخمی ہوئے۔

ایران نے اس حملے کا الزام اسرائیل اور امریکہ پر عائد کیا اور موساد کے لیے مبینہ طور پر کام کرنے کے الزام میں 10 ایرانی شہریوں کو گرفتار کیا۔

نومبر 2010: مجید شہریاری

مجید شہریاری شہید بہشتی یونیورسٹی میں نیوکلیئر انجینئرنگ کے پروفیسر تھے اور ایران کے ایٹمی پروگرام میں ایک اہم حیثیت رکھتے تھے۔

انہیں اس وقت قتل کیا گیا جب موٹر سائیکل سوار حملہ آوروں نے تہران میں ٹریفک کے دوران ان کی کار پر مقناطیسی بم نصب کیا اور اُسے ریموٹ کنٹرول سے دھماکے سے اُڑا دیا۔ اس حملے میں ان کی اہلیہ زخمی ہوئیں۔

اس وقت کے ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے اس حملے کا الزام اسرائیل اور اس کے مغربی اتحادیوں پر عائد کیا۔

اُسی دن ایک اور سائنسدان فریدون عباسی دوانی پر بھی حملہ کیا گیا تھا، جو خوش قسمتی سے بچ گئے۔ ایران نے ان حملوں کا الزام اسرائیل اور امریکہ پر عائد کیا۔

جولائی 2011: داریوش رضائی‌نژاد

داریوش رضائی‌نژاد الیکٹریکل انجینئرنگ کے پی ایچ ڈی امیدوار اور قومی سلامتی کے ایک تحقیقی ادارے سے وابستہ محقق تھے۔ رپورٹس کے مطابق وہ اُس وقت ایسے ہائی وولٹیج سوئچز پر کام کر رہے تھے جو جوہری وار ہیڈ کے آغاز کے لیے اہم سمجھے جاتے ہیں۔

انہیں اس وقت گولیوں کا نشانہ بنایا گیا جب وہ اپنی بیٹی کو کنڈرگارٹن سے لینے کے بعد اپنے گھر کے باہر پہنچے۔ موٹر سائیکل پر سوار دو مسلح افراد نے ان پر پانچ گولیاں چلائیں۔ ان کی اہلیہ بھی اس حملے میں زخمی ہوئیں۔

اگرچہ ایرانی حکام نے ان کے نیوکلیئر پروگرام سے تعلق کی تردید کی، مگر غیر ملکی ذرائع نے دعویٰ کیا کہ ان کا جوہری پروگرام سے تعلق تھا۔ اسرائیل پر اس قتل کی ذمہ داری عائد کی گئی، جبکہ جرمن جریدے ’دیر اشپیگل‘ کی ایک رپورٹ میں موساد کو اس کارروائی میں ملوث قرار دیا گیا۔

جنوری 2012: مصطفی احمدی روشن

مصطفی احمدی روشن کیمیکل انجینئرنگ کے گریجویٹ اور نطنز یورینیم افزودگی تنصیب میں سپروائزر تھے۔ وہ ایران کے جوہری افزودگی پروگرام کے ایک اہم رکن سمجھے جاتے تھے۔

جنوری 2012 کی صبح، جب وہ کام پر جا رہے تھے، تو موٹر سائیکل پر سوار دو افراد نے ان کی کار پر مقناطیسی بم لگایا۔ دھماکے سے وہ خود اور ان کے ڈرائیور ہلاک ہو گئے جبکہ راہگیر بھی زخمی ہوئے۔

ایران نے اس حملے کا الزام اسرائیل اور امریکہ پر عائد کیا اور حکام نے کہا کہ یہ حملہ پہلے ہونے والے قاتلانہ حملوں کی طرح ہے۔

نومبر 2020: محسن فخری زادہ

محسن فخری زادہ ایران کے فوجی جوہری پروگرام کے اہم سائنسدان تھے۔ وہ ’تنظیم برائے دفاعی اختراعات و تحقیق‘ کے سربراہ تھے اور پندرہ سال سے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے نشانے پر تھے۔

نومبر 2020 میں ایک نہایت پیچیدہ اور جدید حملے میں، انہیں تہران کے قریب ایک پک اپ ٹرک پر نصب ریموٹ کنٹرولڈ، مصنوعی ذہانت سے چلنے والی مشین گن کے ذریعے قتل کر دیا گیا۔

یہ ایک ٹن وزنی ہتھیار، مختلف حصوں میں چھپا کر ایران اسمگل کیا گیا تھا، اور اسے موساد کی ٹیم نے ایران سے باہر ایک کمانڈ سینٹر سے کنٹرول کیا۔ حملے کے بعد شواہد مٹانے کے لیے ٹرک کو دھماکے سے اُڑا دیا گیا۔

ایران نے اس کارروائی کا ذمہ دار اسرائیل کو قرار دیا اور رپورٹس کے مطابق اس آپریشن سے ایران کا جوہری پروگرام کافی حد تک متاثر ہوا۔

جون 2025

جمعہ کے روز ایران میں اسرائیل کے تازہ ترین ڈرون اور فضائی حملوں میں کم از کم چھ معروف جوہری سائنسدان مارے گئے۔ ان میں عبدالحمید منوچہر، احمدرضا ذوالفقاری، سید امیرحسین فقیہی، مطلبی زادہ، محمد مهدی طہرانی اور فریدون عباسی شامل ہیں۔



(سورس: ٹی آر ٹی ورلڈ)





#ایران اسرائیل جنگ
#ایران امریکا جوہری مذاکرات
#امریکا