
حکومت نے نئے بجٹ میں تجویز دی ہے کہ جو سولر پینلز باہر سے منگوائے جاتے ہیں، اُن پر 18 فیصد ٹیکس لگایا جائے۔
وفاقی حکومت نے منگل کے روز قومی اسمبلی میں مالی سال 2025-26 کا بجٹ پیش کیا۔
وزیرِ خزانہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں بننے والے اور باہر سے آنے والے سولر پینلز کے درمیان برابر کا مقابلہ یقینی بنانے کے لیے حکومت نے تجویز دی ہے کہ درآمدی سولر پینلز پر 18 فیصد ٹیکس لگایا جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدام پاکستان میں سولر پینلز کی مقامی صنعت کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ امپورٹڈ سولر پینلز پر ٹیکس لگانے کی تجویز سیلز ٹیکس نظام کو بہتر بنانے اور تمام شعبوں کے ساتھ برابری کا سلوک کرنے کی ایک کوشش ہے۔
آئی ایم ایف معاہدے کے تحت پاکستان نے بجلی اور گیس کے نرخوں میں کافی اضافہ کیا، جس سے عوام پر بوجھ بڑھا۔ اب لوگ بجلی کے زیادہ بلوں سے بچنے کے لیے تیزی سے سولر پینلز لگوا رہے ہیں۔
ایک برطانوی ادارے ’ایمبر‘ کے مطابق 2023 میں پاکستان کی 14 فیصد بجلی سولر سے پیدا ہوئی، جو 2021 میں صرف 4 فیصد تھی۔ اس طرح اب سولر بجلی نے کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، اور پاکستان میں بجلی کے تین بڑے ذرائع میں سولر تیسرے نمبر پر آ گیا ہے۔
روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بجلی کی پیداوار میں سولر توانائی کا حصہ چائنہ سے بھی دوگنا ہے حالانکہ چائنہ دنیا میں سولر پینلز بنانے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
اگرچہ پاکستان میں سولر توانائی تیزی سے مقبول ہو رہی ہے اور بجلی کا ایک بڑا ذریعہ بن چکی ہے، لیکن عام شہری، خاص طور پر شہری مڈل کلاس شہری، اس سے فائدہ نہیں اٹھا پا رہے۔
وجہ یہ ہے کہ سولر پینلز لگوانا مہنگا ہے اور بجلی کے نرخ بہت زیادہ ہو چکے ہیں، اس لیے یہ لوگ نہ سولر لگا سکتے ہیں اور نہ ہی مہنگی بجلی کا بوجھ برداشت کر سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ بجلی کا استعمال کم کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ یہ بات بجلی صارفین، ماہرین اور حکومتی عہدیداروں سے کی گئی بات چیت سے سامنے آئی ہے۔