
بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا سب سے زیادہ اثر پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر جیکب آباد میں محسوس کیا گیا، جہاں درجہ حرارت اکثر 48 سے 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔
پچھلے مہینے دنیا بھر میں زمین کا اوسط درجہ حرارت 1850 سے 1900 کے درمیان والے دور کے مقابلے میں 1.4 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تھا۔ یہ دور پری انڈسٹریل کہلاتا ہے، جب انسانوں نے ابھی بڑے پیمانے پر فیکٹریوں اور انڈسٹریز میں کوئلہ، تیل اور گیس جیسے فوسل فیولز جلانا شروع شروع کیا تھا۔
جب فوسل فیولز جلتے ہیں تو کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسز فضا میں شامل ہوتی ہیں، جو زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ کرتی ہیں اسی عمل کو گلوبل وارمنگ کہتے ہیں۔
تازہ رپورٹ ایسے وقت آئی ہے جب دنیا بھر میں موسم کی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات ایک جیسے نہیں ہیں۔
چین اور یورپی یونین نے فضا میں نقصان دہ گیسوں (کاربن) کا اخراج کم کیا ہے، جو اچھی بات ہے۔ لیکن دوسری طرف ٹرمپ حکومت اور کچھ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں ابھی بھی زیادہ مقدار میں فوسل فیولز (جیسے کوئلہ، تیل اور گیس) جلا رہی ہیں، جو ماحول کو مزید خراب کر رہی ہے۔
کوپرنیکس کلائمٹ چینج سروس کی رپورٹ کے مطابق درجہ حرارت ویسٹ انٹارکٹیکا، مشرق وسطیٰ اور مغربی ایشیا کے بڑے حصے، شمال مشرقی روس اور شمالی کینیڈا میں اوسط سے کہیں زیادہ رہا۔ 1.4 ڈگری سینٹی گریڈ کے اضافے کے باوجود، مئی 2025 وہ پہلا مہینہ تھا جو گزشتہ 22 مہینوں میں پہلی بار 1.5 ڈگری سیلسیئس (2.7 ڈگری فارن ہائیٹ) کی حد سے کم رہا۔‘
کوپرنیکس کلائمٹ چینج سروس کے ڈائریکٹر کارلو بونٹیمپو نے کہا کہ ’اگرچہ یہ وقتی طور پر زمین کے لیے کچھ راحت کا باعث بن سکتا ہے، لیکن امکان ہے کہ آنے والے وقت میں درجہ حرارت ایک بار پھر 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کی حد سے تجاوز کر جائے گا۔‘
بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا سب سے زیادہ اثر پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر جیکب آباد میں محسوس کیا گیا، جہاں درجہ حرارت اکثر 48 سے 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔
یہ شدید گرمی اس سے پچھلے سال جون میں پڑنے والی ہیٹ ویو کے بعد آئی ہے، جس میں 560 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ماحولیاتی ماہر اور امپیریل کالج لندن کی ایسوسی ایٹ پروفیسر فریڈریکے اوٹو نے صحافیوں کو بتایا ’اگرچہ دنیا کے اکثر حصوں میں 20 ڈگری سینٹی گریڈ کی ہیٹ ویو بہت زیادہ نہیں لگتی، لیکن ہمارے اس خطے کے لیے یہ بہت سنگین مسئلہ ہے۔‘