
اسرائیل نے جمعے کی صبح ایران کے فوجی اور جوہری مراکز پر فضائی حملے کرکے جنگ چھیڑ دی ہے۔
اسرائیلی فوج کے مطابق رات کے وقت کیے گئے اچانک حملوں میں اسرائیلی فضائیہ کے 200 سے زائد طیاروں نے ایران بھر میں تقریباً 100 اہداف کو نشانہ بنایا۔ فوج نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ان حملوں میں ایران کے ’تین سینئر ترین فوجی کمانڈروں‘ کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
اسرائیل اور ایران کے درمیان اس سے قبل بھی 2024 میں میزائل حملوں کا تبادلہ ہو چکا ہے۔
2 اکتوبر کو ایران نے اسرائیل کے بڑے شہروں پر کم از کم 180 بیلسٹک میزائل داغے تھے۔ پاسدارانِ انقلاب کا کہنا تھا کہ یہ میزائل حملے غزہ اور لبنان میں اسرائیلی حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت اور پاسدارانِ انقلاب، حماس اور حزب اللہ کے رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ کے جواب میں کیے گئے تھے۔
جواباً اسرائیل نے 25 اکتوبر 2024 کو ایران کے اندر تقریباً 20 فوجی اہداف کو نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ کارروائیاں ’ایران اور اس کے علاقائی نیٹ ورکس‘ کی کئی ماہ سے جاری حملوں کے ردعمل میں کی گئی ہیں۔
لیکن جمعہ 13 جون 2025 کو اسرائیل کے حملے ایک سنگین اور خطرناک موڑ کی نشاندہی کرتے ہیں، جس کے بعد ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اسرائیل کو ’سخت سزا‘ دینے کی دھمکی دی ہے۔
اسرائیل اور ایران — جو کہ طویل عرصے سے دشمن ہیں اور کئی دہائیوں سے ایک دوسرے کے خلاف پراکسی جنگوں میں مصروف رہے ہیں — اب براہِ راست جنگ کی جانب بڑھتے نظر آ رہے ہیں۔ ایسے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ:
دونوں ممالک کی فوجی طاقت کتنی ہے؟
وہ ایک دوسرے پر کس حد تک حملہ آور ہو سکتے ہیں؟
اور وہ اپنے اپنے ملک کا دفاع کیسے کر سکتے ہیں؟
یہ سب سوالات خطے کے امن، عالمی ردِعمل اور مستقبل کی ممکنہ جنگ کے اندازے کے لیے اہم ہو چکے ہیں۔
فوجی اہلکاروں کی تعداد:
ایران
ایران اور اسرائیل کی فوجی طاقت کا موازنہ کیا جائے تو تعداد کے اعتبار سے ایران کو برتری حاصل ہے۔ برطانیہ کے تھنک ٹینک ’انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز‘ کی رپورٹ ’ملٹری بیلنس 2023‘ کے مطابق ایران کے پاس 6 لاکھ 10 ہزار حاضر سروس فوجی اہلکار ہیں، جن میں 3 لاکھ 50 ہزار بری فوج، 1 لاکھ 90 ہزار پاسدارانِ انقلاب کے اہلکار، 18 ہزار بحریہ، 37 ہزار فضائیہ اور 15 ہزار فضائی دفاع سے وابستہ ہیں۔
اس کے علاوہ ایران کے پاس 3 لاکھ 50 ہزار ریزرو اہلکار بھی موجود ہیں۔ ایران میں 18 سال سے زائد عمر کے مردوں کے لیے فوجی بھرتی لازمی ہے۔
اسرائیل
دوسری جانب اسرائیل کے پاس 1 لاکھ 69 ہزار 500 حاضر سروس اہلکار ہیں، جن میں 1 لاکھ 26 ہزار بری فوج، 9 ہزار 500 بحریہ اور 34 ہزار فضائیہ میں شامل ہیں۔
اسرائیل کے پاس ریزرو فورس کی تعداد 4 لاکھ 65 ہزار ہے، جو کہ ایران سے زیادہ ہے۔ اسرائیل میں بھی فوجی سروس 18 سال سے زائد عمر کے زیادہ تر مردوں اور خواتین کے لیے لازمی ہے۔
فوجی اخراجات
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی اپریل 2024 میں شائع کردہ رپورٹ کے مطابق ایران اور اسرائیل کے فوجی اخراجات میں واضح فرق ہے۔
ایران:
سال 2023 میں ایران نے دفاعی شعبے پر 10.3 ارب ڈالر خرچ کیے، جو 2022 کے مقابلے میں صرف 0.6 فیصد اضافہ تھا۔
اسرائیل:
اس کے برعکس اسرائیل کے فوجی اخراجات 27.5 ارب ڈالر رہے، جو 2022 کے مقابلے میں 24 فیصد زیادہ تھے۔
اسرائیل کے اخراجات میں یہ نمایاں اضافہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں کے بعد غزہ پر جنگ کے نتیجے میں ہوا، جس نے دفاعی ضروریات کو مزید بڑھا دیا۔
زمینی فورسز:
ایران
رپورٹ ’ملٹری بیلنس 2023‘ کے مطابق زمینی افواج کے حوالے سے ایران کو برتری حاصل ہے۔ ایران کے پاس 10 ہزار 513 سے زائد ملٹری ٹینک، 6,798 توپیں اور 640 سے زیادہ بکتر بند گاڑیاں موجود ہیں۔
ایرانی فوج کے پاس 50 ہیلی کاپٹرز ہیں جبکہ پاسدارانِ انقلاب کے پاس مزید 5 ہیلی کاپٹرز بھی موجود ہیں۔
اسرائیل
اس کے مقابلے میں اسرائیل کے پاس تقریباً 400 جنگی ٹینک، 530 توپیں اور 1,190 بکتر بند گاڑیاں موجود ہیں۔
اگرچہ اسرائیل کی بکتر بند گاڑیوں کی تعداد ایران سے زیادہ ہے، لیکن ٹینکوں اور توپوں کی تعداد میں ایران کو نمایاں برتری حاصل ہے۔
ایئرفورس:
’ملٹری بیلنس 2023‘ کے مطابق فضائی قوت کے لحاظ سے ایران اور اسرائیل دونوں کے پاس خاطر خواہ صلاحیت موجود ہے، تاہم ٹیکنالوجی اور معیار میں فرق پایا جاتا ہے۔
ایران
ایران کے پاس کل 312 جنگی طیارے ایرانی فضائیہ کے پاس ہیں، جبکہ پاسدارانِ انقلاب کے پاس مزید 23 جنگی طیارے موجود ہیں۔
ایرانی فضائیہ کے پاس 2 اٹیک ہیلی کاپٹر، آرمی کے پاس 50 ہیلی کاپٹرز اور پاسدارانِ انقلاب کے پاس 5 ہیلی کاپٹرز کے پاس ہیں۔
اسرائیل:
اس کے برعکس اسرائیل کے پاس 345 جنگی طیارے اور 43 اٹیک ہیلی کاپٹرز موجود ہیں۔ اگرچہ ایران کی مجموعی تعداد زیادہ نظر آتی ہے، لیکن اسرائیل کے طیارے جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہیں اور ان میں امریکی ساختہ ایف-35 جیسے جدید ترین فائٹر جیٹ شامل ہیں، جو اسے فضائی برتری میں واضح فوقیت دیتے ہیں۔
نیوی:
ملٹری بیلنس 2023 کے مطابق:
ایران:
ایران کے پاس 17 آبدوزیں (سبمرینز)، 68 ساحلی اور گشت کرنے والے جنگی جہاز، 7 کورویٹس (چھوٹے جنگی بحری جہاز)، 12 لینڈنگ شپس، 11 لینڈنگ کرافٹس، اور 18 لاجسٹک و سپورٹ بحری جہاز موجود ہیں۔
اسرائیل:
اس کے مقابلے میں اسرائیل کے پاس 5 آبدوزیں اور 49 گشت و ساحلی جنگی کشتیاں ہیں۔
یعنی تعداد کے لحاظ سے ایران کی بحریہ بڑی ہے، لیکن اسرائیل کی نیوی ٹیکنالوجی کے لحاظ سے زیادہ جدید سمجھی جاتی ہے۔
ایئرڈیفنس سسٹم
اسرائیل
ملٹری بیلنس 2023 کے مطابق:
اسرائیل کا فضائی دفاعی نظام ’آئرن ڈوم‘ کے نام سے مشہور ہے، جو دنیا کے مؤثر ترین میزائل دفاعی نظاموں میں شمار ہوتا ہے۔ منگل کی رات ایران کی جانب سے داغے گئے زیادہ تر میزائلوں کو اسی سسٹم نے روکا۔
آئرن ڈوم میں ایک ریڈار سسٹم ہوتا ہے جو کسی بھی آنے والے میزائل یا راکٹ کی سمت، رفتار اور مقام کا پتا چلاتا ہے۔ پھر ایک کنٹرول سینٹر فیصلہ کرتا ہے کہ آیا وہ میزائل کسی شہری علاقے کے لیے خطرہ ہے یا نہیں۔ اگر وہ خطرناک نہ ہو تو اسے گرا کر روکنے کے بجائے کھلے میدان میں گرنے دیا جاتا ہے۔
اگر میزائل سے خطرہ ہو تو لانچر سے فوری طور پر روکنے والے (انٹرسپٹر) میزائل داغے جاتے ہیں۔ ہر لانچر میں 20 انٹرسپٹر میزائل موجود ہوتے ہیں۔
یہ نظام اسرائیل کو ایران یا دیگر دشمنوں کی جانب سے ہونے والے راکٹ حملوں سے محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اسرائیل میں آئرن ڈوم کے 10 دفاعی یونٹس (بیٹریاں) مختلف مقامات پر نصب ہیں، جو قریبی فاصلے سے آنے والے راکٹ اور میزائلوں کو روکنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
تاہم درمیانے اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کو روکنے کے لیے اسرائیل کے پاس مزید جدید نظام بھی موجود ہیں:
ڈیوڈز سلِنگ: یہ نظام ایسے میزائلوں کو نشانہ بناتا ہے جن کی رینج 40 کلومیٹر سے 300 کلومیٹر تک ہوتی ہے۔
ایرو سسٹم: یہ نظام بہت طویل فاصلے سے داغے گئے بیلسٹک میزائلوں کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جن کی رینج 2,400 کلومیٹر (1,491 میل) تک ہو سکتی ہے۔
یہ تمام دفاعی نظام اسرائیل کی فضا کو ایران یا کسی بھی دشمن ملک کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔
ایران:
فروری میں ایران نے آذرخش نامی نیا فضائی دفاعی نظام تعینات کیا۔ فارسی میں ’آذرخش‘ کا مطلب ’کڑک‘ یا ’بجلی‘ ہے۔ یہ ایک قلیل فاصلے اور کم بلندی پر مار کرنے والا نظام ہے، جو انفراریڈ، ریڈار اور الیکٹرو-آپٹک سسٹمز سے لیس ہے۔ اسے گاڑیوں پر نصب کیا جا سکتا ہے اور یہ دشمن اہداف کا سراغ لگا کر انہیں تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ایران کے پاس زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کے مختلف نظام موجود ہیں، جو طویل، درمیانے اور قریب فاصلے کے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ طویل فاصلے تک مار کرنے والے نظاموں میں روسی ساختہ S-200 اور S-300 شامل ہیں، جبکہ باور-373 نامی مقامی طور پر تیار کردہ نظام بھی اس فہرست میں شامل ہے، جن کی تعداد 42 سے زائد بتائی گئی ہے۔ درمیانے فاصلے والے میزائل نظاموں میں امریکی ساختہ MIM-23 Hawk، چینی HQ-2J اور ایرانی ساختہ خورداد-15 شامل ہیں، جن کی مجموعی تعداد 59 سے زائد ہے۔ قریب فاصلے والے نظاموں میں چینی ساختہ CH-SA-4 اور روسی 9K331 Tor-M1 شامل ہیں، اور ان کی تعداد 279 بتائی جاتی ہے۔ یہ دفاعی نظام ایران کی فضائی حدود کو مختلف اقسام کے فضائی حملوں سے بچانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
ایران کا فضائی دفاعی نظام مختلف رینج کے میزائلوں کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسے مقامی و غیر ملکی ٹیکنالوجی سے تیار کیا گیا ہے۔
بیلسٹک میزائلوں کی صلاحیت
ایران:
امریکی تھنک ٹینک سنٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے میزائل ڈیفنس پروجیکٹ کے مطابق ایران کے پاس کم از کم 12 اقسام کے درمیانے اور قلیل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل موجود ہیں۔
سب سے کم رینج والے میزائل: توندر-69 — 150 کلومیٹر (93 میل)
سب سے زیادہ رینج والے میزائل میں خرمشہر اور سجیل شامل ہیں۔ ان دونوں کی رینج تقریباً 2,000 کلومیٹر تک ہے۔
اسرائیل:
اسرائیل کے پاس کم، درمیانے اور درمیانے سے طویل فاصلے تک مار کرنے والے کم از کم 4 اقسام کے بیلسٹک میزائل موجود ہیں:
ان میں سب سے کم رینج والا میزائل LORA ہے، جس کی حد تقریباً 280 کلومیٹر ہے، جبکہ سب سے زیادہ رینج رکھنے والا میزائل Jericho-3 ہے، جس کی حد 4,800 کلومیٹر سے لے کر 6,500 کلومیٹر تک ہے۔ ان میزائلوں کی مدد سے اسرائیل نہ صرف خطے میں بلکہ دنیا کے کئی دور دراز علاقوں تک حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
جوہری صلاحیت
اسرائیل
امریکہ میں قائم آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کی رپورٹ کے مطابق جوہری صلاحیت کے لحاظ سے، اندازہ ہے کہ اسرائیل کے پاس تقریباً 90 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔
ایران
دوسری جانب ایران کے پاس غالباً جوہری ہتھیار موجود نہیں ہیں، تاہم اس کا جوہری پروگرام کافی ترقی یافتہ ہے اور وہ متعدد جوہری تنصیبات اور تحقیقی مراکز چلا رہا ہے۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے 2000 کی دہائی کے اوائل میں ایک مذہبی فتویٰ کے ذریعے جوہری ہتھیار بنانے کو اسلام میں حرام قرار دیا تھا۔ تاہم مئی 2025 میں ایران نے یہ عندیہ دیا کہ اگر اس کی بقا کو خطرہ لاحق ہوا تو وہ اپنی جوہری پالیسی پر نظرِ ثانی کر سکتا ہے۔