
ماہ رنگ بلوچ سمیت دیگر بلوچ رہنما 22 مارچ سے کوئٹہ کی ہُڈا ڈسٹرکٹ جیل میں قید ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری کو پاکستان کی سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری کے خلاف درخواست ان کی بہن نادیہ بلوچ کی جانب سے ملک کی سب سے بڑی عدالت میں دائر کردی گئی ہے۔
ماہ رنگ بلوچ 22 مارچ سے کوئٹہ کی ہُڈا ڈسٹرکٹ جیل میں قید ہیں۔ وہ اُس وقت گرفتار ہوئیں جب انہوں نے بلوچستان میں ایک علیحدگی پسند حملے کے بعد مسافر ٹرین پر ہونے والے واقعے کے خلاف احتجاج میں شرکت کی۔ ڈاکٹر ماہ رنگ سمیت بلوچ یکجہتی کے دیگر کارکنان بیبو بلوچ، گلزادی بلوچ، صبغت اللہ شاہ جی اور بیبرگ بلوچ کے علاوہ نیشنل پارٹی کے سینیئر کارکن غفار قمبرابی بلوچ کو عید الفطر سے قبل گرفتار کیا گیا تھا۔
انہیں ’مینٹیننس آف پبلک آرڈر‘ قانون کے تحت گرفتار کیا گیا، جسے ان کے حامی بلوچستان میں پرامن اختلافِ رائے کو دبانے کی ایک بڑی کارروائی کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔
دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ یہ گرفتاری غیرقانونی ہے اور پرامن جدوجہد کو دبانے کی کوشش ہے۔
انگریزی اخبار ڈان کے مطابق ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی بہن نادیہ بلوچ نے سپریم کورٹ سے اپیل کی کہ وہ بلوچستان ہائی کورٹ کا 15 اپریل کا وہ فیصلہ کالعدم قرار دے جس میں ڈاکٹر مہرنگ کی مینٹیننس آف پبلک آرڈر کے تحت گرفتاری کے خلاف درخواست مسترد کی گئی تھی۔
ڈاکٹر مہرنگ بلوچ نے اس ہفتے امریکی جریدے ٹائم میگزین میں جیل سے ایک خط شائع کیا ہے، جس میں انہوں نے لکھا کہ ’انصاف کی بات کرنا جرم نہیں ہے۔‘
پاکستانی حکام نے ماہ رنگ بلوچ پر الزام لگایا ہے کہ وہ عوامی سطح پر بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) جیسے علیحدگی پسند گروہوں کے بیانیے کو فروغ دے رہی ہیں۔ تاہم ٹائم میگزین میں شائع شدہ خط میں ماہ رنگ بلوچ نے واضح کیا کہ حکام ان کے بی ایل اے یا کسی اور مسلح گروہ سے تعلق کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کر سکے اور انہوں نے تنقید کی کہ ریاستی ادارے پرامن احتجاج اور عسکریت پسندی کے درمیان فرق کو مٹا رہے ہیں۔
رواں سال کے آغاز میں بلوچستان ہائی کورٹ نے ان کی ابتدائی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ عدالتی ریلیف کے بجائے انتظامی فورم سے رجوع کریں۔
اب ان کی بہن کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر نئی درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس فیصلے کو معطل کر کے سپریم کورٹ یہ جائزہ لے کہ آیا پچھلے عدالتی فیصلے میں آئینی تحفظات، جیسے کہ حبسِ بے جا کو نظرانداز تو نہیں کیا گیا۔
سپریم کورٹ نے ابھی تک یہ اعلان نہیں کیا کہ وہ یہ کیس کب سنے گی۔