
اے ایف پی کا کہنا ہے کہ اس کے فری لانس کانٹریبیوٹرز غزہ میں جنگ زدہ حالات کے باعث ’انتہائی خطرناک‘ صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔
غزہ میں بین الاقوامی خبر رساں ادارے ایجنسی فرانس پریس (اے ایف پی) نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ میں موجود اس کے فری لانس صحافیوں کو فوری طور پر باہر نکلنے میں مدد کرے کیونکہ ان کے صحافی جنگ زدہ علاقے میں ’خوفناک‘ اور ’ناقابل برداشت‘ صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔
دنیا کی سب سے بڑی خبر رساں ایجنسیوں میں سے ایک ایجنسی فرانس پریس (اے ایف پی) نے منگل کے روز یہ اپیل اُس وقت کی جب صحافیوں کی ایک تنظیم نے خبردار کیا کہ غزہ میں موجود ان کے ساتھی بھوک کا شکار ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ اسرائیل اور حماس جنگ کی رپورٹنگ نہیں کرپا رہے۔
اے ایف پی کا سٹاف گزشتہ سال 2024 میں غزہ سے نکلنے کے بعد سے وہاں ایک رائٹر، تین فوٹوگرافر اور چھ ویڈیو جرنلسٹس کے ساتھ کام کر رہا ہے، یہ تمام افراد فری لانس صحافی ہیں۔
پیرس میں قائم فرانسیسی خبر رساں ایجنسی نے ایک بیان میں کہا کہ ’مہینوں سے ہم بے بسی کے ساتھ دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے صحافیوں کے حالات زندگی کس قدر تیزی سے بگڑتے جا رہے ہیں۔‘
’ان کی صورتحال اب ناقابل برداشت ہو چکی ہے، باوجود اس کے کہ انہوں نے غیر معمولی ہمت، پیشہ ورانہ عزم اور صبر کا مظاہرہ کیا۔‘
اے ایف پی نے کہا کہ چونکہ اسرائیل نے غیر ملکی صحافیوں کے غزہ داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے، اس لیے فلسطینی فری لانس صحافی عالمی برادری کو معلومات کی فراہمی میں انتہائی اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اب اسرائیلی حکام کو چاہیے کہ وہ ان صحافیوں اور ان کے خاندانوں کو فوری طور پر انخلا کی اجازت دیں، کیونکہ ان کی زندگیاں خطرے میں ہیں‘۔
پیر کے روز اے ایف پی کے صحافیوں کی تنظیم ’سوسائٹی آف جرنلسٹس‘ نے خبردار کیا کہ غزہ میں موجود ان کے ساتھی بھوک کے باعث موت کے دہانے پر ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ ’ہمیں ہر لمحہ یہ اندیشہ لگا رہتا ہے کہ ہمیں ان کی موت کی خبر سننے کو ملے گی اور یہ ہمارے لیے ناقابل برداشت ہے۔‘
’چند دیگر صحافیوں کے علاوہ وہ اب واحد صحافی رہ گئے ہیں جو غزہ کی پٹی میں پیش آنے والے حالات کی رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا کو تقریباً دو سال سے اس علاقے میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ہم یہ تماشہ دیکھنے کو تیار نہیں کہ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے مر جائیں۔‘
تنظیم نے کئی صحافیوں کی حالت کا ذکر کیا، جن میں 30 سالہ فوٹوگرافر بشار بھی شامل ہیں، جنہوں نے حال ہی میں سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’میرا جسم کمزور ہو چکا ہے‘ اور اب ان میں کام کرنے کی طاقت نہیں رہی۔
سوسائٹی آف جرنلسٹس نے بیان میں کہا کہ ’اگست 1944 میں اے ایف پی کے قیام کے بعد سے ہم نے جنگی حالات میں اپنے صحافیوں کو کھویا، کچھ ساتھی زخمی یا قید بھی ہوئے، لیکن ہم میں سے کسی کو یاد نہیں کہ کسی ساتھی کو بھوک سے مرتے دیکھا ہو۔‘
یاد رہے کہ اسرائیل نے مارچ میں غزہ میں تمام انسانی امداد کا داخلہ روک دیا تھا، تاہم مئی سے ایک متنازعہ امدادی تنظیم جی ایچ ایف (جسے اسرائیل اور امریکہ کی حمایت حاصل ہے) کے ذریعے محدود امداد کی اجازت دی گئی۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے مطابق، جی ایچ ایف کے آغاز کے بعد سے اسرائیلی فورسز نے ایک ہزار سے زائد فلسطینیوں کو خوراک لینے کی کوشش کے دوران نشانہ بنایا، جن میں سے زیادہ تر لوگ امداد کے مراکز کے قریب مارے گئے۔