
ماہرین کے اندازے کے مطابق غزہ کی تعمیر نو کے لیے 50 سے 70 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی۔
اسرائیلی بمباری اور نسل کشی کے دو سال بعد غزہ کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا ہے۔ غزہ کی کُل آبادی کے آدھے سے زیادہ لوگ بے گھر ہوچکے ہیں، گھر، مکان، مساجد، سکول، ہسپتال سب تباہ ہوچکے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ کی بحالی میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں اور اس پر اربوں ڈالر لاگت آئے گی۔
فلسطینی وزیرِ اعظم محمد مصطفیٰ نے 67 ارب ڈالر کا ایک منصوبہ پیش کیا ہے جس کے تحت آئندہ پانچ سال کے اندر غزہ کی تعمیرِ نو اور بحالی کے منصوبے شامل ہیں۔ یہ منصوبہ عرب اور بین الاقوامی ماہرین کی مدد سے تیار کیا گیا ہے۔
اس پروگرام میں پانچ سالہ فریم ورک ترتیب دیا گیا ہے جس پر 67 ارب ڈالر کی مالیت آئے گی۔ یہ رقم 18 شعبوں میں 56 منصوبوں پر خرچ ہوگی۔ جس میں ہاؤسنگ، سوشل سروسز، انفراسٹرکچر، معیشت اور حکومت شامل ہیں۔ اس پروگرام پر عمل درآمد وزارتوں، قومی اداروں اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کیا جائے گا۔
دوسری جانب عالمی بینک، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی جانب سے فروری میں جاری کی گئی ایک جامع رپورٹ کے مطابق بحالی کے لیے کل تخمینہ 50 سے 70 ارب ڈالر ہے، جبکہ ابتدائی تین سالوں میں فوری ضروریات کے لیے 20 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔
رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2023 سے جنوری 2025 تک کے عرصے میں غزہ میں ہونے والے عمارتوں، سڑکوں، پلوں، اسکولوں، ہسپتالوں، بجلی یا پانی کے نظام، گاڑیوں وغیرہ کے نقصانات کا تخمینہ 29.9 ارب ڈالر لگایا گیا ہے، جبکہ معاشی نقصان تقریباً 19.1 ارب ڈالر ہیں۔
دیگر اندازوں کے مطابق غزہ کی تعمیر نو پر رپورٹ کے تخمینے سے کہیں زیادہ لاگت آئے گی۔
غزہ کے میڈیا آفس نے جمعے کو ایک بیان میں کہا کہ اہم شعبوں میں ابتدائی نقصان 70 ارب ڈالر سے زائد ہے اور فوری طور پر تعمیر نو کے لیے عالمی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
ناروے کے ریفیوجی کونسل کے میڈیا اور کمیونیکیشن کے مشیر احمد بیرم کا کہنا ہے کہ غزہ کی تعمیر نو ایک عالمی کوشش کا تقاضا کرتی ہے، جیسی شاید دہائیوں سے نہیں دیکھی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ’غزہ کی تعمیر نو کے چیلنجز بہت بڑے ہوں گے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ اسرائیل بنیادی ڈھانچے، سڑکوں اور تعمیراتی سامان کی ترسیل کی اجازت دے۔‘
اقوام متحدہ کے غزہ کی تعمیر نو کے مشیر مامون بسیسو نے غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کی فوری ضروریات پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’سب سے پہلے لوگوں کو پناہ گاہ فراہم کرنا ضروری ہے۔ پھر بنیادی سہولیات، خاص طور پر پانی، کی فراہمی، خوراک، طبی خدمات اور بچوں کی تعلیم کے لیے اسکولوں کا نظام دوبارہ قائم کرنا ہوگا۔‘
احمد بیرم نے بھی اتفاق کیا کہ ’فی الحال توجہ قحط سے نجات دلانے اور سردیوں سے پہلے عارضی رہائش فراہم کرنے پر ہونی چاہیے۔ آج سب سے اہم بات غزہ میں انسانی جانوں کو بچانا ہے۔‘
گھروں کی تعمیر:
کئی رپورٹس کے مطابق غزہ میں سب سے زیادہ متاثرہ شعبہ رہائش ہے۔
اردنا رپورٹ کے مطابق 15.2 ارب ڈالر یعنی کل لاگت کا 30 فیصد گھروں کی تعمیر نو کے لیے مختص کیا گیا ہے۔
اگلے تین سالوں میں غزہ میں رہائش کے لیے تقریباً 3.7 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی۔
طویل مدت میں سب سے بڑی ضرورت غزہ میں تباہ شدہ گھروں کی مکمل تعمیر نو ہے، جس پر تقریباً 11.4 ارب ڈالر خرچ ہوسکتے ہیں۔
ہیلتھ سسٹم:
عالمی ادارہ صحت کے اندازوں کے مطابق غزہ میں ہسپتالوں سمیت پورے ہیلتھ سسٹم کی بحالی میں 7 ارب ڈالر سے زیادہ لاگت آئے گی۔
اقوام متحدہ کی صحت کی ایجنسی کے مطابق اسرائیلی فوج نے صحت کے اداروں پر 778 حملے کیے، جس سے 34 ہسپتال، 91 میڈیکل سینٹرز اور 210 ایمبولینسز متاثر ہوئے۔
نتیجتاً غزہ کے 228 ہسپتالوں اور بنیادی صحت کے مراکز میں سے نصف سے زیادہ کام کرنا بند ہو گئے۔
تقریباً ایک تہائی 176 بنیادی صحت کے مراکز جزوی طور پر کام کر رہے ہیں، اور اکتوبر 2023 کے بعد 1700 سے زیادہ صحت کے کارکنان ہلاک ہو چکے ہیں۔
تعلیم:
اردنا رپورٹ کے مطابق غزہ میں تعلیم کے شعبے کی بحالی کے لیے اگلے پانچ سالوں میں تقریباً 3.8 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی۔
یونیسیف کے مطابق جولائی 2025 تک 97 فیصد اسکولوں کی عمارتوں کو نقصان پہنچا اور 564 میں سے 518 اسکول یا تو مکمل تعمیر نو یا بڑے مرمت کے بغیر فعال نہیں ہو سکتے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2023 کے آخر سے جاری حملوں میں 17 ہزار 237 طلبا، ایک ہزار 271 یونیورسٹی کے طلبا اور 967 تعلیمی عملہ ہلاک ہو چکے ہیں اور تقریباً 6 لاکھ 60 ہزار بچے اسکول سے باہر ہیں۔
رپورٹ کے مطابق غزہ میں پانی، صفائی کے شعبے کی بحالی کے لیے تقریباً 2.7 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔
چیلنجز اور رکاوٹیں
غزہ کی تعمیر نو اور بحالی کے راستے میں کئی بڑے مسائل ہیں، جن کا ذکر غزہ کی تعمیر نو کے لیے اقوام متحدہ کے مشیر مامون بسیسو نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ نا پھٹنے والے بم سب سے بڑا چیلنج ہیں، اسرائیل نے غزہ میں شدید بمباری کی ہے وہاں تقریبا 30 فیصد بم ابھی تک نہیں پھٹے، جو بہت خطرناک ہیں۔
دوسرا بڑا چیلنج ملبے کے نیچے دبی لاشیں ہیں۔ بسیسو کے مطابق جنگ بندی کے بعد بھی، اسرائیل نے ایک عمارت پر حملہ کیا جس میں 60 لوگ ملبے کے نیچے پھنسے تھے۔
تیسرا بڑا چیلنج تعمیراتی مواد اور بھاری مشینری کی رسائی میں رکاوٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی مکمل نگرانی کی وجہ سے غزہ میں تعمیراتی سامان کے داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ اسی وجہ سے تعمیر نو کا عمل بہت طویل اور مشکل ہو رہا ہے۔
بسیسو نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر اسرائیل نے سامان کی رسائی پر کنٹرول جاری رکھا، تو ملبہ ہٹانے میں 14 سال اور گھروں کی تعمیر میں 80 سال لگ سکتے ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ تمام تعمیراتی سامان دن رات چوبیس گھنٹے مسلسل غزہ میں پہنچتے رہیں اور بھاری مشینری جیسے کرینز اور بلڈوزرز کی اجازت دی جائے۔‘
غزہ کو دوبارہ تعمیر کون کرے گا؟
غزہ کی تعمیر نو کے حوالے سے ماہرین نے مالی وسائل کی ضرورت پر تشویش ظاہر کی ہے۔ مامون بسیسو نے بتایا کہ کئی ڈونرز اس بات سے ہچکچا رہے ہیں کہ غزہ میں سرمایہ کاری کریں، کیونکہ وہ بار بار تباہی کے خطرے سے خوفزدہ ہیں۔ بین الاقوامی ایجنسیاں مدد کرنے پر راضی ہیں، مگر ان کی شرط ہے کہ وہ اس وقت تک غزہ میں سرمایہ کاری نہیں کریں گی جب تک کوئی پائیدار سیاسی حل نہیں آتا۔
بسیسو، جو 2008-2009 کی جنگ کے دوران غزہ میں تعمیراتی منصوبوں کے انچارج تھے، نے بتایا کہ اس دوران یورپی یونین نے تعمیر نو کے لیے فنڈز فراہم کیے، مگر دو سال بعد اسرائیل نے کئی گھروں کو تباہ کر دیا اور یورپی یونین نے مزید مدد سے انکار کر دیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پچھلے سال ڈونرز کے درمیان یہ بات ہوئی کہ تمام فنڈز ورلڈ بینک کے ٹرسٹ فنڈ میں جائیں، لیکن یورپی یونین نے فنڈز ورلڈ بینک کو نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا اور اپنے فنڈز خود مینج کر رہی ہے۔
غزہ کی تعمیر نو کے انتظام کے لیے مصر نے ایک عبوری انتظام کے طور پر ’کمیونٹی کوآرڈینیشن کمیٹی‘ یعنی ماہرین اور ٹیکنوکریٹس کی ٹیم بنانے کی تجویز دی ہے۔ بسیسو نے زور دیا کہ مکمل پیمانے پر تعمیر نو اور بحالی کے لیے ضروری ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی سے مکمل طور پر چلی جائے، کیونکہ پانی یا نکاسی آب کی پائپ لائنیں تب ہی تعمیر ہو سکتی ہیں جب زمین پر مکمل کنٹرول ہو۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسرائیل غزہ کے 53 فیصد علاقے پر قابض رہا تو مکمل تعمیرنو ممکن نہیں۔