
برطانوی وزیرِ اعظم کئیر اسٹارمر اور ترک صدر رجب طیب اردوان نے پیر کے روز انقرہ میں اس معاہدے پر دستخط کیے۔
ترکیہ نے اپنے فضائی دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے تقریباً 11 ارب ڈالر مالیت کے 20 یورو فائٹر ٹائیفون طیارے خریدنے کے لیے برطانیہ کے ساتھ معاہدہ کر لیا ہے۔ یہ اقدام اس وقت کیا گیا ہے جب انقرہ ففتھ جنریشن لڑاکا طیارہ ’قان‘ تیار کر رہا ہے۔
برطانوی وزیرِ اعظم کئیر اسٹارمر اور ترک صدر رجب طیب اردوان نے پیر کے روز انقرہ میں اس معاہدے پر دستخط کیے۔
برطانیہ کی وزارتِ دفاع کے مطابق یہ لڑاکا طیاروں کا معاہدہ پچھلی کئی دہائیوں میں سب سے بڑا ہے جبکہ صدر اردوان نے اسے ’دو قریبی اتحادیوں کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات کی نئی علامت‘ قرار دیا۔
انقرہ میں بات کرتے ہوئے کیئر سٹارمر نے کہا کہ یہ معاہدہ نیٹو کے لیے بھی ایک کامیابی ہے، کیونکہ برطانیہ اور ترکیہ دونوں اس اتحاد کے رکن ہیں۔
کیئر اسٹارمر کے مطابق پیر کو طے پانے والے اس معاہدے کے تحت ٹائیفون طیارے 2030 میں انقرہ پہنچنے کی توقع ہے۔
جولائی میں ترکیہ اور برطانیہ نے 40 ٹائیفون طیاروں کی فراہمی کے ابتدائی معاہدے پر دستخط کیے تھے، جسے یورو فائٹر کنسورشیم کے دیگر رکن ممالک جرمنی، اٹلی اور اسپین نے بھی منظور کیا۔
ترک حکام کا کہنا ہے کہ انقرہ اپنی فضائی بیڑے کو مضبوط بنانے کے لیے 120 لڑاکا طیارے خریدنا چاہتا ہے، تاکہ اس دوران اپنا مقامی طور پر تیار کردہ ففتھ جنریشن ’قان‘ طیارہ آپریشنل ہونے تک اس خلا کو پُر کیا جا سکے۔
علاقائی حریفوں جیسے اسرائیل کے ساتھ توازن قائم رکھنے کی کوششوں کے تحت، ترکیہ کی وزارتِ دفاع نے کہا ہے کہ وہ قطر اور عمان سے بھی 12 مزید ٹائیفون طیارے خریدنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
گزشتہ سال ترکیہ نے امریکہ کے ساتھ 7 ارب ڈالر مالیت کے 40 ایف-16 طیاروں کے معاہدے کی تصدیق کی تھی، تاہم اس معاہدے میں اب تاخیر ہے۔
صدر اردوان نے حال ہی میں اپنے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ سے اس امکان پر بھی بات کی ہے کہ ترکیہ دوبارہ ایف-35 لڑاکا طیارہ پروگرام میں شامل ہو سکتا ہے۔ یہ وہی پروگرام ہے جس سے ترکیہ کو 2019 میں روسی ساختہ ایس-400 میزائل دفاعی نظام خریدنے کے بعد نکال دیا گیا تھا۔
وزیرِ اعظم کئیر اسٹارمر کا ترکیہ کا پہلا دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب استنبول کے قید میں موجود میئر اکرم امام اوغلو کے خلاف نئے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ امام اوغلو کو صدر اردوان کا سب سے بڑا سیاسی حریف سمجھا جاتا ہے۔
پیر کے روز ترک پراسیکیوٹرز نے امام اوغلو پر، جنہیں مارچ میں مبینہ بدعنوانی کے الزامات پر گرفتار کیا گیا تھا، جاسوسی میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔
انہوں نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے خلاف کارروائی سیاسی بنیادوں پر کی جا رہی ہے۔






