انڈیا کی ریاست بہار میں پولنگ کا آغاز، اس الیکشن میں جیت نریندر مودی کے لیے کیوں اہم ہے؟

10:136/11/2025, جمعرات
جنرل6/11/2025, جمعرات
ویب ڈیسک
ایک پولنگ اسٹیشن کے باہر خواتین کی قطار لگی ہوئی ہے۔
ایک پولنگ اسٹیشن کے باہر خواتین کی قطار لگی ہوئی ہے۔

انڈیا کی ریاست بہار میں ریاستی انتخابات کے لیے پولنگ کا عمل جمعرات سے شروع ہو گیا ہے۔ بہار کے الیکشن کو انڈیا میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کی مقبولیت کے امتحان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

بہار کی ریاستی اسمبلی کی 243 نشستوں پر انتخابات کے لیے ریاست بھر میں قائم پولنگ اسٹیشنز پر طویل قطاریں لگی ہیں اور لاکھوں لوگ ووٹنگ کے عمل میں حصہ لے رہے ہیں۔ یہ انتخابات ایسے وقت ہو رہے ہیں جب انڈیا میں بے روزگاری اور الیکشن میں مبینہ فراڈ کے معاملے پر لوگوں میں بڑے پیمانے پر تشویش پائی جاتی ہے۔

بہار کے انتخابات کے نتائج 14 نومبر کو متوقع ہیں اور یہ نتائج فیصلہ کریں گے کہ یہاں نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کی حکومت برقرار رہے گی یا انہیں گورننس کے مسائل اور عوام میں بڑھتی بے چینی کی وجہ سے کسی سرپرائز کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بہار مودی کے لیے کیوں اہم ہے؟

بہار کو انڈیا کی سیاسی طور پر سب سے زیادہ متحرک ریاست قرار دیا جاتا ہے۔ اسے طویل عرصے سے انڈیا کی سیاسی سمت متعین کرنے والی ریاست بھی سمجھا جاتا ہے۔ تاہم یہ ریاست اب نریندر مودی کے لیے ایک اہم آزمائش ہے۔ کیوں کہ اگر نریندر مودی 2029 کے عام انتخابات اور اگلے دو برسوں میں ہونے والے اتر پردیش، مغربی بنگال اور آسام کے ریاستی انتخابات جیتنا چاہتے ہیں تو اس کی تیاری کے لیے ان کا بہار میں الیکشن جیتنا ضروری ہے۔

انڈیا کی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں یعنی لوک سبھا میں بہار کی 40 نشستیں ہیں۔ اس لیے ریاستی انتخابات میں فتح مودی کی جماعتوں کے اتحاد کو مضبوط کرے گی جب کہ شکست اپوزیشن کو متحرک کرے گی۔

نئی دہلی کے تجزیہ کار سدھارتھ مشرا کے مطابق 'بہار کا الیکشن صرف اتحادوں کا نہیں بلکہ سیاسی حساب کتاب کا معاملہ ہے۔ اگر مودی کی قیادت والا این ڈی اے اتحاد یہاں لڑکھڑا گیا تو یہ مرکز میں بھی ان کے اتحاد کو بھی غیر مستحکم کر سکتا ہے۔'

گزشتہ سال کے وفاقی انتخابات میں بی جے پی واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی اور اسے مرکز میں حکومت بنانے کے لیے اتحادی جماعتوں جنتا دل (یونائیٹڈ) اور لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس) پر انحصار کرنا پڑا۔ یہی جماعتیں بہار میں بھی بی جے پی کی اہم اتحادی ہیں۔

اپوزیشن کی طرف سے درپیش چیلنجز

بھارتیہ جنتا پارٹی بہار میں حکمران اتحاد کی قیادت کر رہی ہے۔ بہار کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار کا تعلق بی جے پی کی اتحادی جماعت جنتا دل (یونائیٹڈ) سے ہے۔ 74 سالہ نتیش کمار تقریباً دو دہائیوں سے اقتدار میں ہیں اور انہیں ریاست میں انفراسٹرکچر کی بہتری اور امن و امان کے مسائل کے خاتمے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔

نتیش کمار ماضی میں مودی کے مخالف تھے تاہم بعد ازاں وہ بی جے پی کی قیادت والے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) میں دوبارہ شامل ہوگئے تھے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر این ڈی اے کو بہار میں شکست ہوئی تو یہ نہ صرف نتیش کمار کی جماعت میں تقسیم کا باعث بن سکتی ہے بلکہ مودی کے وفاقی اتحاد کے لیے بھی خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ مرکز میں مودی کی حکومت نتیش کے 12 ارکانِ پارلیمنٹ کی حمایت پر منحصر ہے جو شکست کی صورت میں حزبِ اختلاف میں شامل ہوسکتے ہیں۔

سیاسیات کے پروفیسر روی رنجن کے مطابق 'یہ الیکشن صرف بہار کی قیادت ہی نہیں بلکہ مودی حکومت کے استحکام پر بھی اثر ڈال سکتا ہے۔'

این ڈی اے کے مقابلے میں راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) اور کانگریس کا اتحاد ہے جب کہ مودی کے سابق انتخابی حکمت کار پرسانت کشور کی نئی جماعت جن سوراج بھی میدان میں ہے۔

دوسری جانب کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے حال ہی میں بہار میں الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے حالیہ ووٹر لسٹ میں کی گئی ترامیم، بے ضابطگیوں اور مبینہ الیکشن فراڈ کے خلاف ایک جارحانہ مہم چلائی ہے۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کی جانب سے ووٹر لسٹ میں ترامیم کو ایک جماعت کو سیاسی فائدہ پہنچانے کی کوشش قرار دیا ہے۔

نئی ووٹر لسٹ میں ریاست کے 7 کروڑ 40 لاکھ ووٹروں میں سے تقریباً 10 فی صد کو نکال دیا گیا ہے۔ حزبِ اختلاف کا الزام ہے کہ یہ اقدام غریبوں اور اقلیتوں کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کے لیے کیا گیا جب کہ الیکشن کمیشن کا مؤقف ہے کہ یہ ترامیم بڑے پیمانے پر ہجرت، نئے نوجوان ووٹروں کی شمولیت اور اموات کی عدم رپورٹنگ کی وجہ سے ضروری تھیں۔

بہار کا پسِ منظر

بہار انڈیا کی سب سے غریب ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں لوگوں کا زیادہ تر انحصار زراعت ہر ہے۔ یہ ریاست 13 کروڑ انڈین شہریوں کا مسکن ہے۔

ووٹرز کو لبھانے کے لیے بی جے پی اتحاد اور اس کی مرکزی حریف جماعت کانگریس دونوں نے لاکھوں سرکاری نوکریاں پیدا کرنے کا وعدہ کیا ہے حالانکہ ماہرِ معیشت اس امکان پر شبہ ظاہر کرتے ہیں کیوں کہ ریاست کی معیشت انتہائی کمزور ہے۔

ستمبر میں نریندر مودی نے خواتین ووٹروں کو راغب کرنے کے لیے ایک روزگار اسکیم کے طور پر 75 لاکھ خواتین کو فی کس 10 ہزار بھارتی روپے کی نقد امداد فراہم کی۔

خواتین کو بہار میں ایک اہم ووٹ بینک سمجھا جاتا ہے کیونکہ زیادہ تر مرد روزگار کی تلاش میں بڑے شہروں کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں۔

##انڈیا
##بہار الیکشن
##نریندر مودی