غزہ میں بینک کھل گئے لیکن کیش موجود نہیں، نقد رقم کی کمی کیسے لوگوں کے مسائل بڑھا رہی ہے؟

15:0931/10/2025, Cuma
جنرل31/10/2025, Cuma
ویب ڈیسک
فائل فوٹو
فائل فوٹو

غزہ میں جنگ بندی کے بعد شہری خود کو ان حالات سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں جو انہیں دو سال تک بھگتنا پڑے۔ اپنے پیاروں کو کھونے کا دکھ، اپنے گھر تباہ ہونے کا صدمہ اور ہر وقت بم باری کے خوف کے نقوش ذہنوں میں لیے غزہ کے شہری اب دوبارہ آباد ہونے کی کوشش میں ہیں۔ لیکن اس کوشش میں انہیں جن پہاڑ جیسے مسائل کا سامنا ہے، ان میں سے ایک بینکوں میں کیش نہ ہونا بھی ہے۔

جن تباہ حال لوگوں نے سب کچھ گنوانے کے بعد اپنی کچھ رقم برے وقتوں کے لیے بینکوں میں محفوظ کر رکھی تھی، اب وہ یہ رقم بھی نہیں نکلوا پا رہے کیوں کہ بینکوں میں کیش ہی نہیں ہے۔

غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیلی کرنسی یعنی شیکل ہی استعمال ہوتی ہے۔ اور غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل نے نقد رقم کے غزہ میں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے جس کی وجہ سے اب وہاں دوسری چیزوں کی طرح کرنسی کی بھی قلت ہے۔
غزہ میں ایک بینک کے باہر لوگ قطار میں کھڑے ہیں تاکہ رقم نکلوا سکیں۔ (تصاویر: رائٹرز)

'رقم ٹرانسفر کر سکتے ہیں نکلوا نہیں سکتے'

بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ وہ امداد پر انحصار کے بجائے اپنے وسائل سے ہی اپنے حالات بہتر کریں۔ لیکن بینک تباہ ہونے، کیش کی قلت اور بہت سے دیگر مسائل نے ان کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔

وہ بینک جو تباہ ہونے سے بچ گئے، جنگ بندی کے چھ دن بعد 16 اکتوبر سے دوبارہ کھل گئے ہیں۔ بینکوں کے باہر لوگوں کی قطاریں بھی لگ رہی ہیں مگر لوگ خالی ہاتھ لوٹ رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بینک آف فلسطین کے باہر کھڑے 61 سالہ وائل ابو فارس نے بتایا کہ 'بینک میں پیسے نہیں ہیں۔ آپ صرف کاغذی کارروائی کے ذریعے ٹرانزیکشن (رقم کو ایک اکاؤنٹ سے دوسرے میں منتقل) کر سکتے ہیں۔'
غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیلی کرنسی شیکل ہی استعمال ہوتی ہے۔ فائل فوٹٖو

لیکن لوگوں کو روز مرہ ضروریات مثلاً سامان خریدنے کے لیے کیش چاہیے لیکن اسرائیل نے بینک نوٹس کی منتقلی پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

تنخواہ کیش کرانے پر بھاری فیس

غزہ کے ایک اکانومسٹ محمد ابو جیب نے رائٹرز کو بتایا کہ بینکوں میں صرف الیکٹرانک بزنس ہو رہا ہے۔ نہ کوئی رقم جمع کرانے آ رہا ہے اور نہ ہی نکلوانے والوں کے لیے کیش ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ملازمت پیشہ جن لوگوں کی تنخواہ بینک اکاؤنٹس میں آتی ہے، وہ اپنی تنخواہ نکالنے کے لیے کچھ لالچی تاجروں کے پاس جانے پر مجبور ہیں جو ان سے بھاری فیس لے کر انہیں کیش دیتے ہیں۔ بعض اوقات یہ فیس رقم کا 20 سے 40 فی صد تک ہوتی ہے۔

مثلاؔ اگر آپ 100 روپے کیش نکلوائیں گے تو 20 سے 40 روپے تک وہ تاجر رکھ لے گا جو اپنے اکاؤنٹ میں وہ پیسے ٹرانسفر کرا کر آپ کو کیش دے رہا ہوگا۔

سات بچوں کی والدہ ایمان الجعبری کو وہ وقت یاد آتا ہے جب بینکوں میں لین دین میں ایک گھنٹے سے کم وقت لگتا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ اب 'آپ کو دو، تین دن بار بار چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پوری زندگی یہیں کھڑے رہنا پڑے گا۔ اور اس سب کے بعد آپ کو صرف 400 سے 500 شیکلز (35 سے 45 ہزار روپے) ہی مل پاتے ہیں۔

ایمان کے بقول ہم اتنی کم رقم سے کیا خریدیں اور کیا چھوڑیں۔ جب کہ یہاں مہنگائی اس قدر زیادہ ہے کہ ہماری قوتِ خرید ہی ختم ہو گئی ہے۔

ایک نیا کاروبار

لیکن 'ضرورت ایجاد کی ماں ہے' کے مصداق کچھ لوگوں نے اسی پریشانی میں ایک نیا کام بھی ڈھونڈ لیا ہے جس سے وہ پیسے کما رہے ہیں۔ انہی میں 40 سالہ منال السیدی بھی ہیں جو پھٹے پرانے کرنسی نوٹوں کی مرمت کر کے اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ کیوں کہ اکثر کرنسی نوٹوں کی حالت بہت خراب ہوتی ہے۔
منال السعیدی (تصاویر: رائٹرز)

انہوں نے بتایا کہ 'میں کام کرتی ہوں، 20 یا 30 شیکل (1700 سے 2500 روپے) کماتی ہوں اور گھر کے لیے ایک روٹی، رات کے کھانے کے لیے پھلیاں، فلافل وغیرہ، کچھ نہ کچھ سادہ سا لے جاتی ہوں۔'

53 سالہ فلسطینی تاجر سمیر نمروتی اب وہ بینک نوٹس بھی لے لیتے ہیں جو حد سے زیادہ استعمال کی وجہ سے تقریباً ناقابلِ شناخت ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے لیے صرف اس کا سیریل نمبر اہم ہے۔ جب تک سیریل نمبر موجود ہے، میں اسے پیسے ہی سمجھتا ہوں۔

کچھ لوگ انڈے یا چینی جیسی روز مرہ کی چیزوں کے لیے بھی بینک ایپس کے ذریعے آن لائن ٹرانسفر کا سہارا لیتے ہیں مگر دکان دار اس پر اضافی فیس وصول کرتے ہیں۔

کیش کا مسئلہ ترجیح ہی نہیں تھا

غزہ میں نقدی کی فراہمی کا مسئلہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے میں شامل نہیں تھا۔ اس منصوبے میں تعمیرِ نو اور سیکیورٹی کے معاملات کو بعد کے مراحل پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

غزہ میں امداد کی فراہمی کی نگرانی کرنے والے اسرائیلی فوج کے ادارے نے اس سوال پر فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا کہ کیا بینک نوٹ دوبارہ غزہ لانے کی اجازت دی جائے گی اور اگر دی جائے گی تو کب؟

کرنسی کے بحران نے غزہ کے اُن لوگوں کے مسائل مزید بڑھا دیے ہیں جنہوں نے اپنے رشتے دار، نوکریاں اور گھر کھو دیے ہیں۔ اپنی جمع پونجی خرچ کر دی ہے اور کھانا، خیمے یا دوائیں خریدنے کے لیے اپنا سامان تک بیچ دیا ہے۔ کچھ لوگ تو گزارے کے لیے اشیا کے تبادلے (بارٹر ٹریڈ) کا سہارا لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

##غزہ
##کیش
##رقم
##بینک