
پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ غزہ میں پاکستانی افواج بھیجنے کا فیصلہ ابھی زیرِ غور ہے اور فلسطینیوں کے تحفظ کے لیے کردار ادا کرنا پاکستان کے لیے فخر کی بات ہوگی۔
خواجہ آصف کا یہ بیان منگل کو ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب بعض رپورٹس میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پاکستان غزہ میں انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس میں اپنی افواج بھیجنے پر آمادہ ہے۔
ایک امریکی نیوز پلیٹ فارم پولیٹیکو نے بھی امریکی دفاعی حکام کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان، انڈونیشیا اور آذربائیجان غزہ میں افواج بھیجنے کے معاملے میں پہل کر سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں امن کے لیے جو منصوبہ تجویز کیا ہے، اس کے تحت غزہ میں سیکیورٹی کے لیے ایک انٹرنیشنل فورس تعینات کی جائے گی جس میں مختلف ملکوں کی فورسز شامل ہوں گی۔ تاہم ابھی یہ تفصیلات طے نہیں ہو سکی ہیں کہ کون سے ملکوں کی فورسز اس میں حصہ لیں گی۔
اسرائیل یہ کہہ چکا ہے کہ وہ صرف انہی ملکوں کی فورسز کو غزہ میں داخلے کی اجازت دے گا جن پر وہ آمادہ ہوگا۔ بعض اسرائیلی حکام یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل ترکیہ کی فورسز کو غزہ میں داخلے کی اجازت نہیں دے گا۔
'حکومت پارلیمنٹ اور تمام متعلقہ اداروں کو اعتماد میں لے گی'
اس فورس میں پاکستان کی شمولیت کی خبروں پر خواجہ آصف نے کہا کہ 'اگر مسلم دنیا ایسا کوئی فیصلہ کرتی ہے اور پاکستان اس میں حصہ لینا چاہے یا اس کی ضرورت پڑے، تو میرے خیال میں یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہوگی کہ ہم اپنے بھائیوں کے تحفظ اور ان کی بھلائی کو یقینی بنانے میں کردار ادا کریں۔'
انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاملہ ابھی زیرِ غور ہے اور ابھی کوئی حتمی فیصلہ ہونا باقی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو یہ پیش کش قبول کرنی چاہیے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت اس معاملے پر پارلیمنٹ اور تمام متعلقہ اداروں کو اعتماد میں لے گی۔
یاد رہے کہ پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر نے حال ہی میں اردن اور مصر کا دورہ کیا ہے۔ اس دورے کے بعد سے ان قیاس آرائیوں میں تیزی آئی ہے کہ پاکستان غزہ میں اپنی فورسز بھیجنے پر آمادہ ہے۔
پاکستان اس سے قبل بھی اقوامِ متحدہ کے امن آپریشنز میں شامل ہو چکا ہے۔ پاکستانی افواج نے صومالیہ، لائبیریا، سوڈان، یمن اور لبنان سمیت کئی ملکوں میں مشنز میں حصہ لیا ہے۔






