
مصر نے حال ہی میں اپنے 'گرینڈ ایجپشین میوزیم' کا افتتاح کیا ہے۔ یہ کسی ایک تہذیب کی یادگاروں یا باقیات پر مشتمل دنیا کا سب سے بڑا میوزیم ہے۔
میوزیم کا افتتاح قاہرہ میں ہفتے کو مصر کے صدر عبد الفتح السیسی نے کیا جس میں کئی عرب رہنماؤں کے ساتھ ساتھ مغربی ملکوں کے رہنما بھی شریک ہوئے۔ ایک ارب ڈالر کی خطیر رقم سے بننے والے اس میوزیم کے افتتاح کو مصری صدر نے ملکی تاریخ کا ایک نیا باب قرار دیا۔

اس میوزیم کا خواب مصر کے سابق وزیرِ ثقافت فاروق حسنی نے دیکھا تھا اور انہوں نے پہلی بار 1992 میں یہ تجویز پیش کی تھی۔ میوزیم کی تعمیر شروع ہوئی 2005 میں اور تقریباً 20 سال کے طویل عرصے کے بعد یہ منصوبہ مکمل ہوا ہے۔ درمیان میں سیاسی حالات کی وجہ سے اس منصوبے پر کئی برس کام تعطل کا شکار بھی رہا۔
میوزیم میں نوادرات کی نمائش کے لیے 40 ہزار مربع میٹر کا حصہ مختص ہے جس میں ایک بڑے حصے پر بادشاہ توتن خامون کے خزانے کی نمائش کی گئی ہے۔
توتن خامون فرعون کی حنوط شدہ لاش سن 1922 میں دریافت ہوئی تھی اور ممکنہ طور وہ ملکہ نفرتیتی کے بیٹے تھے جو 19 برس کی عمر میں تین ہزار سال قبل فوت ہوئے تھے۔ ان کے مقبرے سے جتنے نوادرات ملے تھے وہ سب اس میوزیم میں نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔
میوزیم میں مجموعی طور پر 57,000 سے زائد نوادرات رکھے گئے ہیں جو مختلف حصوں میں تقسیم ہیں۔ ان میں توتن خامون گیلری، مرکزی گیلری، گرینڈ ہال، گرینڈ سیڑھی اور خوفو کی کشتی کے میوزیم شامل ہیں۔
صرف توتن خامون کے نوادرات کی تعداد پانچ ہزار سے زیادہ ہے جو پہلی بار ایک ہی جگہ اکٹھے کیے گئے ہیں۔


مصری حکام کے مطابق یہ میوزیم صرف ثقافتی اثاثہ نہیں بلکہ ملک کی سیاحت کی رونقیں دوبارہ بحال کرنے کا اہم منصوبہ ہے۔ 2024 میں مصر میں ڈیڑھ کروڑ سیاح آئے تھے اور حکومت کا ہدف ہے کہ 2032 تک یہ تعداد دگنی ہو جائے۔






