'سرسید نے قمیض اتار کر ناچنا شروع کیا اور 500 روپے جمع کیے': کلرکہار کے اسسٹنٹ کمشنر کا تاریخ سے متعلق متنازع بیان کتنا درست ہے؟

17:1028/10/2025, منگل
جنرل29/10/2025, بدھ
رپورٹر
بیان کی ویڈیو کا اسکرین شاٹ
بیان کی ویڈیو کا اسکرین شاٹ

سوشل میڈیا پر ایک متنازع بیان گردش میں ہے جس میں ایک صاحب کسی تقریب میں پاکستان کے قیام کی جدوجہد کے دوران سرسید احمد خان کے چندہ جمع کرنے کا واقعہ سنا رہے ہیں۔

عدیل احمد (صحافی، ینی شفق)

سوشل میڈیا پر ایک متنازع بیان گردش میں ہے جس میں ایک صاحب کسی تقریب میں پاکستان کے قیام کی جدوجہد کے دوران سرسید احمد خان کے چندہ جمع کرنے کا واقعہ سنا رہے ہیں۔ اس بیان پر سخت تنقید کی جا رہی ہے اور لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ یہ کون ہیں اور ان کا بیان کردہ یہ تاریخی واقعہ کتنا درست ہے؟

یہ بیان کلر کہار کے اسسٹنٹ کمشنر محمد افضال کا ہے۔ کلر کہار پنجاب کے ضلع چکوال کی تحصیل ہے۔

پر محمد افضال کا نام موجود نہیں ہے۔ تاہم فیس بک پر اسسٹنٹ کمشنر کلر کہار کے نام کا ایک پیج ہے جس پر ان کی اگست کی تصاویر موجود ہیں جن میں ان کا تعارف اسسٹنٹ کمشنر محمد افضال کے نام سے کرایا گیا ہے۔

اسسٹنٹ کمشنر کے بیان پر تنازع کیا ہے؟

سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو کلپ میں اسسٹنٹ کمشنر ایک تاریخی واقعہ بیان کر رہے ہیں۔ جس میں وہ کہتے ہیں کہ 'سرسید احمد خان ابتدا میں دو قومی نظریے کے خلاف تھے۔ بعد میں انہیں ادراک ہوا کہ پاکستان کا قیام اب ناگزیر ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی درخواست پر جب تحریکِ آزادی شروع ہوئی تو مسلم لیگ کے لیے فنڈز کی ضرورت پڑی۔ تو انہوں نے اپنی جماعت کے رہنماؤں سے کہا کہ فنڈ ریزنگ کرنی ہے۔ سرسید احمد خان کی عمر اس وقت 60 برس سے زیادہ تھی۔ اور وہ بھی فنڈ ریزنگ کر رہے تھے۔'

اسسٹنٹ کمشنر مزید کہتے ہیں کہ 'سرسید ایک چوک پر گئے جہاں محلے کے کچھ اوباش نوجوان بیٹھے تھے۔ سرسید نے ان سے درخواست کی کہ پاکستان بنانا ہے۔ ہمارے لیڈر کا آرڈر ہے کہ اس کے لیے فنڈ ریزنگ کرنی ہے تو آپ جو بھی چندہ دے سکیں، دیں۔ ان میں سے کچھ منفی سوچ والوں نے کہا کہ بزرگ آدمی ہے کیوں نہ اس کا مذاق بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ 500 روپے دیں گے مگر شرط یہ ہے کہ اپنی قمیض اتار کر آدھا گھنٹہ ناچنا ہوگا۔

محمد افضال ویڈیو میں مزید کہتے سنائی دیتے ہیں کہ 'تاریخ گواہ ہے کہ سرسید احمد خان نے اپنی قمیض اتاری اور ناچنا شروع کیا۔ اس کے بعد ان لڑکوں نے 500 روپے دیے اور وہ پیسے لے کر فنڈ میں جمع کرا دیے۔ اس طریقے سے بنا ہے پاکستان۔'

کیا یہ واقعہ درست ہے؟

یہ واقعہ تاریخی حقائق کے مطابق درست نہیں ہے۔

سرسید احمد خان 1817 میں پیدا ہوئے اور 1898 میں 81 برس کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔ جب کہ بانی پاکستان محمد علی جناح 1876 میں پیدا ہوئے تھے۔ یعنی سرسید کے انتقال کے وقت جناح کی عمر صرف 22 برس بنتی ہے۔ اور اس وقت جناح وکالت کر رہے تھے۔

محمد علی جناح نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز 1906 میں گانگریس میں شمولیت اختیار کر کے کیا تھا۔ اس وقت تک سرسید کے انتقال کو کئی برس بیت چکے تھے۔ لہٰذا سرسید کے محمد علی جناح کی لیڈر شپ میں تحریکِ پاکستان کی مہم چلانے اور اس کے لیے چندہ جمع کرنے کی بات میں کوئی وزن نہیں۔

اس کے علاوہ محمد افضال نے اپنے بیان میں کہا کہ اس واقعے کے وقت سرسید کی عمر 60 سال سے زیادہ تھی۔ اگر حساب لگائیں تو جب سرسید 60 برس کے تھے تو محمد علی جناح کی عمر اس وقت صرف دو سال بنتی ہے۔

اس معاملے پر بات کرتے ہوئے معروف مؤرخ اور پنجاب یونیورسٹی کے ریٹائرڈ ڈین پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چاولہ نے کہا کہ جب سرسید کی وفات ہوئی اس وقت محمد علی جناح انگلینڈ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے یا نئے نئے فارغ التحصیل ہوئے تھے۔

ینی شفق سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا علیحدہ ملک کا تصور تو علامہ اقبال نے 1930 میں دیا تھا جس کے بعد چوہدری رحمت علی نے پاکستان کا لفظ استعمال کیا۔ ان کے بقول علیحدہ ملک کا مطالبہ 1940 میں قراردادِ لاہور میں کیا گیا تھا جب کہ سرسید کا انتقال 1898 میں ہی ہو چکا تھا۔ اس لیے اس واقعے میں کوئی صداقت نہیں۔

سینیئر صحافی اور تاریخِ پاکستان پر عبور رکھنے والے رانا محمد آصف بھی اس واقعے کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول 1940 سے پہلے تک تو پاکستان کا نام ہی نہیں لیا جاتا تھا۔ تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ 1933 میں چوہدری رحمت علی نے لفظ پاکستان استعمال کیا تھا لیکن اس لفظ کا عام استعمال 1940 کے بعد شروع ہوا۔

ینی شفق سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان حقائق سے معلوم ہو جاتا ہے کہ واقعہ بالکل من گھڑت ہے۔ ان کے بقول کسی نے اس واقعے کو کسی نے کہیں سے سن لیا اور بغیر تصدیق کیے آگے بیان کر دیا۔

کیا تحریکِ پاکستان کے دوران ایسا کوئی واقعہ سرسید کے علاوہ کسی اور سے منسوب ہے؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر محمد اقبال چاولہ نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہوگا۔

ویڈیو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کی گئی: اسسٹنٹ کمشنر کا مؤقف

ینی شفق نے معاملے پر ردعمل کے لیے اسسٹنٹ کمشنر محمد افضال سے رابطہ کیا جس میں انہوں نے مختصراً اپنا مؤقف پیش کیا۔

محمد افضال کا کہنا تھا کہ یہ ویڈیو ایڈٹ کی گئی ہے جب کہ اصل سیاق و سباق کچھ اور تھا۔ اسسٹنٹ کمشنر کے بقول یہ بیان علی گڑھ تحریک کے بارے میں تھا جس نے بعد کے ادوار میں تحریکِ پاکستان میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔

محمد افضال نے کہا کہ اس موضوع پر آپ غیر ملکی محققین کے مضامین پڑھ سکتے ہیں۔ حوالے کے طور پر انہوں نے ایک مضمون سے لیا گیا اسکرین شاٹ بھی شیئر کیا جس میں یہ قصہ علی گڑھ کی تحریک کے حوالے سے کسی اور انداز میں بیان کیا گیا تھا۔ اسکرین شاٹ میں سرسید کے حوالے سے درج تھا کہ ایک دن انہوں نے دیکھا کہ لوگ خواجہ سراؤں اور نوجوان خواتین پر پیسے نچھاور کر رہے ہیں۔ اگرچہ وہ باریش مولانا تھے مگر انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پازیب پہن کر اسی مجمع کے بیچ جا کر رقص کریں تاکہ اسکول کے قیام کے لیے کچھ رقم جمع کر سکیں اور لوگوں میں احساس پیدا ہو۔

لیکن اب یہاں سوال اس واقعے کی صداقت پر بھی اٹھتا ہے کہ کیا علی گڑھ کی تحریک کے دوران سرسید نے واقعی رقص کیا تھا؟

'سرسید نے تھیٹر اور ڈرامہ میں حصہ لیا تھا'

مؤرخ ڈاکٹر اقبال چاولہ کے مطابق سرسید احمد خان نے علی گڑھ کالج کے قیام کے لیے بہت جدوجہد کی تھی اور اس کے قیام کے لیے فنڈز جمع کرنے کی خاطر انہوں نے بعض جگہوں پر جا کر تھیٹر اور ڈراموں میں بھی حصہ لیا تھا۔ لیکن اس وقت ہندوستان میں یہ کلچر ہی نہیں تھا کہ قمیض اتار کر رقص کیا جائے۔

ڈاکٹر اقبال چاولہ کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر مغالطے میں یہ بات کہہ گئے ہیں۔

صحافی رانا محمد آصف کا کہنا تھا کہ سرسید کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ علی گڑھ کالج کے قیام کے لیے چندہ جمع کرتے ہوئے انہوں نے بہت غیر معمولی ترکیبیں لڑائیں۔ ان کے بقول ہمیں تاریخ سے یہ حوالہ ضرور ملتا ہے کہ سرسید نے علی گڑھ کالج کے لیے چندہ جمع کرتے ہوئے تھیٹر بھی کیا تھا۔ لیکن پاکستان کی تحریک کے دوران ان کے رقص کرنے کے واقعے کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملتے۔

معروف صحافی حامد میر نے بھی اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے یہی حقائق دہرائے۔ حامد میر کے بقول سرسید احمد خان نے پاکستان کے لیے نہیں بلکہ علی گڑھ یونیورسٹی کے لیے چندہ اکٹھا کیا تھا لیکن چندے کے لیے وہ کام نہیں کیا جس کا موصوف نے دعویٰ کیا ہے۔

کیا سرسید احمد خان دو قومی نظریے کے مخالف تھے؟

سوشل میڈیا پر موجود اسسٹنٹ کمشنر کے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ سرسید ابتدا میں دو قومی نظریے کے مخالف تھے۔

اس پر بات کرتے ہوئے مؤرخ اور پنجاب یونیورسٹی کے ریٹائرڈ پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چاولہ نے کہا کہ سرسید احمد خان کا قیامِ پاکستان میں بہت کلیدی کردار تھا کیوں کہ انہوں نے ہی 1880 کی دہائی میں پہلی بار دو قومی نظریہ پیش کیا تھا۔

انہوں نے تاریخی حقائق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سرسید سے پہلے مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ نے کہا تھا کہ مسلمان اور ہندو دو علیحدہ قومیں ہیں لیکن وہ اور معنوں میں تھا۔ ان کے بقول واضح طور پر اور سائنٹیفک بنیادوں پر دو قومی نظریہ سرسید احمد خان نے ہی پیش کیا تھا اور انہیں ہی جدید دو قومی نظریے کا بانی سمجھا جاتا ہے۔

رانا محمد آصف بھی اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سرسید ہندوستان میں ان ابتدائی لوگوں میں سے تھے جنہوں نے یہ کہا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو علیحدہ علیحدہ حکومتیں ملنی چاہئیں۔ اس سے قبل دو قومی نظریے کا تصور ایسے موجود نہیں تھا۔

##سرسید احمد خان
##پاکستان
##تاریخ