
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق برغوثی سب سے مقبول فلسطینی سیاست دان ہیں اور انہیں فلسطینی معاشرے میں اتحاد پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والا رہنما سمجھا جاتا ہے۔ تاہم وہ 2002 سے اسرائیل میں قید ہیں۔
تحریر: عدیل احمد (صحافی، ینی شفق)
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تجویز دی ہے کہ وہ اسرائیل کی قید میں موجود فلسطینی رہنما مروان برغوثی کی رہائی کے لیے اسرائیل سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ برغوثی پچھلے 22 سال سے اسرائیل کی قید میں ہیں اور بہت مقبول فلسطینی رہنما ہیں۔
امریکی صدر کا یہ بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب واشنگٹن جنگ کے خاتمے کے بعد غزہ میں لیڈرشپ کا خلا پر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے مروان برغوثی کے بارے میں گفتگو جمعرات کو ٹائم میگزین میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کی۔ ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے وائٹ ہاؤس کے مشیروں کے ساتھ مروان برغوثی کی رہائی کے امکانات پر بات کی ہے۔
انٹرویو کے دوران جب برغوثی کے بارے میں پوچھا گیا تو ٹرمپ نے کہا کہ 'میں اسی سوال کا سامنا تقریباً پندرہ منٹ پہلے کر رہا تھا جب آپ نے فون کیا۔ میں اس بارے میں فیصلہ کرنے والا ہوں۔'

مروان برغوثی کون ہیں؟
مروان البرغوثی فلسطین کی آزادی کے لیے چلائی گئی 'فتح تحریک' کے اہم رہنما ہیں۔
مروان برغوثی اسرائیل کی قید میں موجود سب سے زیادہ معروف فلسطینی رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق برغوثی سب سے مقبول فلسطینی سیاست دان ہیں اور انہیں فلسطینی معاشرے میں اتحاد پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والا رہنما سمجھا جاتا ہے۔ تاہم وہ 2002 سے اسرائیل میں قید ہیں۔

برغوثی کا سیاسی سفر
مروان برغوثی 6 جون 1959 کو مغربی کنارے کے گاؤں کوبار میں پیدا ہوئے جو ایک دیہی فلسطینی علاقہ ہے۔ ان کے والد مزدور تھے اور مروان برغوثی کے علاوہ ان کے چھ اور بچے تھے۔
مروان جب آٹھ سال کے ہوئے تو 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے مغربی کنارے پر قبضہ کر لیا جو آج تک جاری ہے۔
مروان برغوثی نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز صرف 15 سال کی عمر میں فتح تحریک میں شامل ہو کر کیا تھا۔ اُس وقت فتح تحریک کے سربراہ یاسر عرفات تھے۔ فتح فلسطین کی آزادی کے لیے بنائی گئی تنظیم فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کا سب سے بڑا گروہ تھا۔

گرفتاری، رہائی اور پھر جلا وطنی
مروان جب 18 سال کے ہوئے تو انہیں اسرائیلی حکام نے گرفتار کر لیا اور اسرائیل کے خلاف مسلح تحریک کے الزام میں انہیں قید کی سزا سنائی گئی۔ تقریباً ساڑھے چار سال قید کاٹنے کے بعد انہیں رہائی مل گئی۔
بعد ازاں انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ گرفتاری کے دوران اسرائیلی اہلکاروں نے انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
1983 میں رہائی کے بعد مروان برغوثی نے رام اللہ کے قریب بیرزیت یونیورسٹی میں تاریخ اور سیاسیات کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیا۔ وہاں وہ ایک طلبہ رہنما کے طور پر سرگرم ہوئے اور جلد ہی فتح کی صفوں میں نمایاں مقام حاصل کر لیا۔
ان کی سرگرمیوں کے باعث اسرائیلی حکام نے انہیں کئی بار گرفتار کیا اور آخرکار 1987 میں انہیں اردن جلاوطن کر دیا گیا۔

پانچ بار عمر قید کی سزا
مروان برغوثی کو سن 2002 میں اسرائیل نے دوبارہ گرفتار کیا۔ اسرائیل نے ان پر ایک عسکری گروہ ’کتائب شہدا الاقصیٰ‘ کی بنیاد رکھنے کا الزام لگایا۔ اس تنظیم نے فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی سپاہیوں اور آباد کاروں کے خلاف حملے کیے تھے۔ لیکن مروان ان الزامات کی تردید کرتے تھے۔
تاہم انہیں حملوں کے الزامات کے تحت 2004 میں پانچ پار عمر قید کی سخت کی سزا سنائی گئی تھی جس کے بعد سے وہ مسلسل قید میں ہی ہیں۔
اس مقدمے کے دوران برغوثی نے اپنی صفائی پیش کرنے سے انکار کیا تھا کیوں کہ وہ عدالت کے اختیارِ سماعت کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔

اسرائیل مروان برغوثی کو رہا کیوں نہیں کرتا؟
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران فلسطینیوں کی جانب سے برغوثی کی رہائی کے بارہا مطالبات کیے جاتے رہے ہیں۔ لیکن اسرائیل نے انہیں رہا نہیں کیا۔ حالاں کہ برغوثی فتح کے رہنما ہیں جو حماس کی سیاسی حریف جماعت ہے۔ لیکن برغوثی کا حماس کی قیادت بھی احترام کرتی ہے اور طویل عرصے سے اس کی رہائی کی حامی رہی ہے۔
سن 2011 میں جب یہییٰ سنوار، جنہیں سات اکتوبر کے حملوں کا ماسٹر مائنڈ بھی کہا جاتا ہے، کے بدلے قیدیوں کا تبادلہ ہوا، تو حماس نے برغوثی کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا تھا مگر اسرائیل نے انکار کر دیا تھا۔
رواں ماہ بھی غزہ جنگ بندی کے معاہدے کے تحت یرغمالوں کے بدلے اسرائیل نے جن فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ان میں مروان برغوثی شامل نہیں ہیں۔ حالاں کہ رپورٹس کے مطابق حماس کے حکام نے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔

کچھ ماہرین کے نزدیک اسرائیل برغوثی کو اس وجہ سے رہا نہیں کرتا کہ چوں کہ ان کا فتح اور حماس دونوں ہی احترام کرتے ہیں، اس لیے وہ فلسطینیوں کو متحد کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو برغوثی سے ایک اور خوف بھی ہے کہ اگرچہ وہ اسرائیل کے فلسطینی علاقوں پر قبضے کے خلاف مسلح مزاحمت کی حمایت کرتے رہے ہیں، مگر وہ دو ریاستی حل کے بھی حامی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فلسطینیوں کے لیے ایک طاقت ور اور متحد کرنے والی شخصیت بن سکتے ہیں۔
مروان برغوثی اب 66 برس کے ہو چکے ہیں اور اب امریکی صدر کے بیان کے بعد فلسطینیوں کو یہ امید ضرور ملی ہے کہ شاید اب کی رہائی عمل میں آ سکتی ہے۔






