دنیا کے بلند ترین پہاڑ سے اسکیئنگ کر کے اترنے والے دنیا کے پہلے شخص جم موریسن، جنہوں نے یہ کارنامہ اپنی بیوی کے لیے انجام دیا

15:4330/10/2025, Perşembe
جنرل30/10/2025, Perşembe
ویب ڈیسک
ماؤنٹ ایوریسٹ سے اسکیئنگ کرتے ہوئے اترنے والے دنیا کے پہلے شخص جم موریسن (تصویر: ایسوسی ایٹڈ پریس ویڈیو اسکرین شاٹ / بشکریہ نیشنل جیوگرافک)
ماؤنٹ ایوریسٹ سے اسکیئنگ کرتے ہوئے اترنے والے دنیا کے پہلے شخص جم موریسن (تصویر: ایسوسی ایٹڈ پریس ویڈیو اسکرین شاٹ / بشکریہ نیشنل جیوگرافک)

حال ہی میں ایک کوہ پیما جم موریسن نے دنیا کے سب سے بلند پہاڑ ماؤنٹ ایوریسٹ پر ایک تاریخی کارنامہ انجام دیا جب وہ اس پہاڑ کی چوٹی سے دامن تک اسکیئنگ کرتے ہوئے نیچے اترے۔ جم موریسن ایسا کرنے والے دنیا کے پہلے شخص ہیں۔

ماؤنٹ ایوریسٹ سے اسکیئنگ کرتے ہوئے اترنے کا خواب موریسن نے اپنی اہلیہ کے ساتھ دیکھا تھا۔ ان کی اہلیہ ہیلاری نیلسن بھی اسکی ماؤنٹینیئر تھیں۔ ان دونوں کا پلان تھا کہ وہ ساتھ میں یہ مہم انجام دیں گے۔ لیکن 2022 میں دنیا کے آٹھویں بلند ترین پہاڑ سے اسکی کے ذریعے اترنے کی کوشش میں ان کی اہلیہ کی موت ہو گئی۔

اس کے بعد سے موریسن کا یہ کارنامہ انجام دینے کے ارادے اور مضبوط ہو گئے۔ اب ان کا مشن صرف اپنا خواب پورا کرنا نہیں تھا بلکہ وہ اپنی اہلیہ کے لیے یہ کرنا چاہتے تھے۔

جم موریسن 15 اکتوبر کو چار گھنٹے کی اسکیئنگ کے بعد ماؤنٹ ایوریسٹ سے نیچے اترنے میں کامیاب رہے۔ ان چار گھنٹوں کا ایک ایک لمحہ ان کے لیے موت سے بچنے کا چیلنج تھا۔
جم موریسن (تصویر: اے پی / نیشنل جیوگرافک)

لیکن موت سے یہ لڑائی صرف چار گھنٹے کی نہیں تھی۔ بلکہ اس سے پہلے پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنے کا سفر بھی جوئے شیر لانے کے برابر تھا۔ کیوں کہ ماؤنٹ ایوریسٹ کی چوٹی تک پہنچنے کے لیے جم موریسن نے وہ راستہ چنا جس سے عام طور پر کوہ پیما اجتناب کرتے ہیں۔ اس راستے کو 'ہارن بائن کولوا' کہا جاتا ہے۔

موت کا سفر

ماؤنٹ ایوریسٹ کی چوٹی تک پہنچنے کے کئی راستے ہیں لیکن 'ہارن بائن کولوا' ایک ایسا راستہ ہے جس سے اب تک صرف پانچ مہمات ہوئی ہیں۔ اور صرف نو کوہ پیما یہاں سے ماؤنٹ ایوریسٹ سر کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ آخری بار 1991 میں کوئی کوہ پیما اس راستے سے ایوریسٹ کی چوٹی تک پہنچے تھے۔

ہارن بائن کولوا کو ایوریسٹ کا 'سپر ڈائریکٹ روٹ' بھی کہا جاتا ہے۔ کیوں یہ ایک کھڑی چڑھائی ہے۔
ماؤنٹ ایورسٹ کا وہ راستہ جس پر ان کوہ پیماؤں نے سفر کیا۔ (تصویر: اے پی)

جم موریسن کے ساتھ اس سفر پر 10 دیگر کوہ پیما اور ڈاکیومیٹری میکر جمی چن بھی تھے۔ جمی چن موریسن کی اس تاریخی مہم پر ڈاکیومینٹری بنا رہے ہیں۔

جمی چِن وہی ہیں جنہوں نے ایلکس ہونالڈ کی بغیر رسی کے ایل کیپٹن سر کرنے کی مہم کو فلم 'فری سولو' کے لیے فلم بند کیا تھا۔

جمی چِن کے مطابق موریسن کی یہ مہم اسکی کی دنیا میں ویسی ہی ہے جیسے بغیر رسی کے پہاڑ چڑھنا۔ اگر آپ کا توازن بگڑ جائے یا پھسل جائیں تو آپ ختم۔ سیدھا نو ہزار فٹ نیچے گر کر موت یقینی ہے۔

ڈاکیومینٹری میکر جمی چن کے بقول 'ہم نے اپنی پوری زندگی بلند پہاڑ چڑھتے ہوئے ہی گزاری ہے۔ لیکن میں نے آج تک کسی چڑھائی کو اتنا خوف ناک ہدف نہیں دیکھا۔'
جم موریسن فلم میکر جمی چن کے ہمراہ (تصویر: اے پی / نیشنل جیوگرافک)

برفانی گڑھوں میں گزری راتیں

بارہ افراد پر مشتمل اس ٹیم نے اس پرخطر راستے پر چلنا شروع کیا، برف کے میدانوں، پتھروں اور برفانی ٹکڑوں پر چلتے رہے۔ گو کہ ان کوہ پیماؤں نے اپنی اس مہم کو انتہائی باریکیوں اور موسم کی پیچیدگیوں کو دیکھتے ہوئے پلان کیا تھا لیکن اس سفر میں ہر لمحہ زلزلے، برفانی تودے یا پتھروں کے گرنے کا خطرہ ان کے سروں پر منڈلا رہا تھا۔

رات کے وقت وہ پہاڑ کی برفانی دیواروں میں گڑھے کھود کر سوتے، ہمیشہ رسیوں سے بندھے ہوئے۔ ایک رات شدید ہوا نے ان کے خیمے کو اڑانے کی بھی کوشش کی لیکن وہ خوش قسمتی سے اس طوفان سے بچ نکلے۔
نیشنل جیوگرافک کی جانب سے اے پی کو فراہم کی گئی ویڈیو کا اسکرین شاٹ جس میں مہم جو پہاڑ چڑھتے نظر آ رہے ہیں۔

ایوریسٹ کی چوٹی تک پہنچنے میں انہیں چار دن لگے۔ اس دوران موریسن برف اور راستے کا جائزہ بھی لیتے رہے جس پر انہیں اسکی کرتے ہوئے نیچے اترنا تھا۔ ان کے بقول 'ہر چیز جو میں دیکھ رہا تھا، مجھے وہ خوف دلا رہی تھی۔ برف کی صورتِ حال بہت بہت خراب تھی۔'

لیکن جم موریسن کے ذہن میں اس وقت صرف اپنی اہلیہ ہیلاری نیلسن کی تصویر چل رہی تھی۔ بقول ان کے، 'میں جیسے جیسے بلندی پر چڑھتا گیا اور ڈیتھ زون کے قریب ہوتا گیا، مجھے ایسا لگا کہ میں اس کے قریب سے قریب تر ہو رہا ہوں۔'

دنیا کی سب سے بلند چوٹی پر قدم

بالآخر جب چار دن بعد اس ٹیم نے دنیا کی سب سے بلند جگہ قدم رکھا تو سورج اپنی آب و تاب سے چمک رہا تھا اور ہمالیہ کے پہاڑ انہیں اپنے قدموں میں بچھے نظر آ رہے تھے۔

یہاں تک ایک مرحلہ تو طے ہو چکا تھا۔ چناں چہ سب نے اس کامیابی کا مختصر جشن منایا اور سیلفیاں لیں۔ جم موریسن اپنے ساتھ اپنی اہلیہ کے جسم کی راکھ لائے تھے جسے انہوں نے ایوریسٹ کی چوٹی پر بکھیر دیا۔

اس کے بعد کا سفر موریسن کو اکیلے طے کرنا تھا۔ انہوں نے اپنے اسکی باندھے اور اپنے ساتھیوں سے کہا 'اب میں بالکل الگ دنیا میں ہوں اور میں اکیلا ہوں۔'
تصویر: اسکرین شاٹ اے پی ویڈیو / بشکریہ نیشنل جیوگرافک

جم موریسن نے اسکیئگ شروع کی 29000 فٹ (8800 میٹر) کی بلندی سے جسے ڈیتھ زون کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ اس بلندی پر زیادہ دیر تک رہنا ممکن نہیں۔ ماؤنٹ ایوریسٹ سے اسکی کے ذریعے اترنے کی آخری کوشش مارکو سفریدی نامی ایک نوجوان سنوبورڈر نے 2002 میں کی تھی لیکن بدقسمتی سے وہ زمین تک نہ پہنچ سکے اور پہاڑ کی ڈھلانوں میں کہیں لاپتا ہو گئے۔

اگلا مرحلہ

موریسن نے ساتھیوں کو الوداع کہہ کر ایک محتاط چھلانگ لگائی اور ان کا اگلا سفر شروع ہو گیا جس کا ایک ایک لمحہ خطرناک تھا۔ لیکن وہ وہی کرتے گئے جس کی وہ پوری تیاری کر کے آئے تھے۔ وہ گرنے کا سوچنے کے بجائے صرف اگلے قدم اور اگلے موڑ کے بارے میں سوچ رہے تھے۔

کچھ جگہوں پر جہاں برف نہیں تھی اور صرف چٹانیں تھیں، موریسن نے اترنے کے لیے رسیوں کا بھی سہارا لیا۔ لیکن انہیں رسیوں کا سہارا اس سے کم لینا پڑا جتنا انہوں نے سوچا تھا۔
جم موریسن اسکیئنگ کرتے ہوئے (تصویر: اے پی ویڈیو اسکرین شاٹ / بشکریہ نیشنل جیوگرافک)

اور چار گھنٹوں کی مسلسل محنت کے بعد وہ بالآخر پہاڑ کے محفوظ حصے تک اترنے میں کامیاب ہو گئے۔

موریسن نے خود کو محفوظ پا کر ایک گہری سانس لی، زور سے چلائے اور اپنی اہلیہ کو یاد کر کے رونے لگے۔

نیچے پہنچنے کے بعد انہوں نے اپنے ساتھیوں کو پیغام بھیجا کہ 'حالات بہت خراب تھے، لیکن میں نے زیادہ تر راستہ شان دار طریقے سے طے کیا۔'

اگلی صبح جب انہوں نے نیچے کھڑے ہو کر پہاڑ کی چوٹی کی طرف دیکھا تو انہیں ایسا محسوس ہوا کہ 'جیسے ہیلاری اب بھی وہاں ہے، دنیا کی سب سے اونچی چوٹی پر، میرے ساتھ۔'

(اس آرٹیکل میں شامل تفصیلات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔)
##ماؤنٹ ایورسٹ
##مہم جو
##کوہ پیما
##جم موریسن