
انقرہ میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران جرمن چانسلر فریڈرک مرز اور ترک صدر اردوان کے سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے جرمنی پر تنقید کی کہ وہ اسرائیل کے غزہ میں ہونے والے ’قتلِ عام‘ کے حوالے سے لاعلم ہے۔ یہ بات انہوں نے جمعرات کو جرمن چانسلر فریڈرک مرز کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہی۔
نیٹو کے اتحادیوں کے درمیان یہ کھلا عوامی تنازع فریڈرک مرز کے عہدہ سنبھالنے کے بعد ترکیہ کے پہلے دورے کے دوران سامنے آیا۔
فریڈرک مرز نے کہا کہ ان کی حکومت نے 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کا ساتھ دیا اور ان کا ماننا ہے کہ اسرائیل اپنی دفاع کے حق کا استعمال کر رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’لازمی اور غیر ضروری جانی نقصان سے بچنے کے لیے صرف ایک فیصلہ کافی ہوتا۔ حماس کو چاہیے تھا کہ وہ یرغمالیوں کو پہلے آزاد کرتا اور اپنے ہتھیار ڈال دیتا۔‘ انہوں نے مزید امید ظاہر کی کہ امریکی ثالثی اور ترکیہ کی ثالثی میں جنگ بندی معاہدے طے پاگیا ہے اور اب یہ جنگ ختم ہونے کے قریب ہے۔
اسرائیل نے نسل کشی کے ذریعے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی: اردوان
دوسری جانب ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ وہ فریڈرک سے اتفاق نہیں کرتے۔
اردوان نے کہا کہ ’حماس کے پاس بم یا جوہری ہتھیار نہیں ہیں، لیکن اسرائیل کے پاس یہ سب ہیں اور وہ ان ہتھیاروں کا استعمال غزہ پر حملے کرنے کے لیے کرتا ہے، مثال کے طور پر پچھلی رات بھی انہی بموں کا استعمال کیا گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کیا جرمنی کو یہ سب نہیں نظر نہیں آرہا؟ کیا آپ جرمنی کو ان باتوں کا علم نہیں؟ غزہ پر حملے کے علاوہ اسرائیل ہمیشہ بھوک اور نسل کشی کے ذریعے اسے دبانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔‘
اقوام متحدہ کی ایک تحقیق کے مطابق اسرائیل غزہ میں نسل کشی میں ملوث ہے اور کہا کہ ہلاکتیں، محاصرہ اور تباہی اس نیت کے ساتھ کی گئی کہ غزہ پٹی میں فلسطینیوں کو ختم کیا جائے۔ متعدد اسرائیلی اور بین الاقوامی حقوق کی تنظیموں نے بھی یہی نتیجہ اخذ کیا۔
فریڈرک مرز نے غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں پر تنقید کی ہے اور اس سال جرمنی نے وہاں فوجی سازوسامان کی برآمدات روک دی ہے۔
تاہم، انہوں نے اسرائیل کے خلاف نسل کشی الزامات کی تائید نہیں کی اور دلیل دی کہ اسرائیل پر تنقید یہودی مخالف جذبات (اینٹی سیمیٹزم) کا بہانہ نہیں بننی چاہیے۔






