
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ قزاقستان اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے ابراہیمی معاہدوں کا حصہ بننے کے لیے تیار ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے یہ اعلان جمعرات کو سامنے آیا ہے۔ اس سے قبل انہوں نے اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو اور قزاقستان کے وزیرِ اعظم قاسم جمارت توکاییو سے بات بھی کی۔
ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر بیان میں لکھا کہ ہم جلد اس کا باضابطہ طور پر اعلان کریں گے اور دستخط کی تقریب جلد منعقد کی جائے گی۔ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ان معاہدوں کا حصہ بننے کے لیے اور بھی بہت سارے ملک تیار ہیں۔
قزاقستان کی حکومت نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس معاملے پر حتمی مذاکرات جاری ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ابراہیمی معاہدوں میں ہماری متوقع شمولیت قازقستان کی خارجہ پالیسی کے اس قدرتی اور منطقی تسلسل کی نمائندگی کرتی ہے جو مکالمے، باہمی احترام اور علاقائی استحکام پر مبنی ہے۔
واضح رہے کہ قزاقستان کی آبادی میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ تاہم سرکاری طور پر یہ ایک سیکولر ملک ہے۔ قزاقستان کے اسرائیل کے ساتھ پہلے ہی اچھے سفارتی اور معاشی تعلقات ہیں جس کا مطلب ہے کہ معاہدہ ابراہمی میں شامل ہونے کا فیصلہ ایک علامتی حیثیت رکھتا ہے۔
ابراہیمی معاہدے کیا ہیں؟
یاد رہے کہ معاہدہ ابراہیمی یا ابراہم اکارڈز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں ہونے والے معاہدے تھے جو ٹرمپ نے عرب ملکوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے کرائے تھے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین نے 2020 میں ان ابراہیمی معاہدوں کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے تھے۔ بعد ازاں اسی سال مراکش نے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے تھے۔
امریکی صدر بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ ان معاہدوں کو مزید ملکوں تک پھیلانا چاہتے ہیں۔ غزہ میں جنگ بندی کے بعد سے ٹرمپ کو قوی امید ہے کہ سعودی عرب بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے ابراہیمی معاہدوں میں شامل ہو جائے گا۔ تاہم ریاض نے اس معاملے پر کوئی رضامندی ظاہر نہیں کی ہے۔ بلکہ اس نے واضح کر دیا ہے کہ وہ کم از کم فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کسی قابلِ عمل راستے کے بغیر آگے نہیں بڑھے گا۔
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان 18 نومبر کو وائٹ ہاؤس کا دورہ بھی کریں گے۔
قزاقستان کے بعد امید ہے کہ وسطی ایشیا کے دیگر ملک بھی ابراہیمی معاہدوں کا حصہ بن سکتے ہیں۔ خاص طور پر آذربائیجان اور ازبکستان جن کے اسرائیل کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔






