
پاکستان اور افغانستان کے درمیان گزشتہ روز جھڑپوں کے باوجود استنبول میں ہونے والے مذاکرات دوسرے روز بھی جاری ہیں۔
پاکستان ٹی وی پر شائع رپورٹ کے مطابق مذاکرات کے ثالث اب اسلام آباد کے مطالبات پر افغان طالبان سے بات چیت کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات میں ترکیہ اور قطر ثالثی کرا رہے ہیں۔
سرکاری ٹی وی کے مطابق پاکستانی وفد نے ثالثوں کو شواہد پر مبنی، جائز اور منطقی مطالبات پیش کیے جن کا مقصد صرف اور صرف سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔ ذرائع کے مطابق ثالثوں نے فراہم کردہ شواہد، بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی روشنی میں پاکستان کے مؤقف کی مکمل حمایت کی ہے۔
ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کرتے ہوئے پاکستان ٹی وی نے کہا کہ ثالث اس بات پر قائل ہو گئے ہیں کہ افغان فریق کو پاکستان کے ان شواہد کو قبول کرنا چاہیے۔ ثالث افغان طالبان کے وفد کے ساتھ پاکستان کے مطالبات پر نکتہ بہ نکتہ بات کر رہے ہیں۔
ذرائع نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا پر خصوصاً افغان اکاؤنٹس سے پھیلائی جانے والی دیگر اطلاعات یا تو محض قیاس آرائیاں ہیں یا دانستہ طور پر گمراہ کن معلومات۔
مذاکرات میں پہلے کیا ہوا؟
پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا یہ تیسرا دور ہے۔
بات چیت کا پہلا دور 18 اور 19 اکتوبر کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوا تھا جہاں ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں ابتدائی جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا۔ دوسرا دور 25 سے 30 اکتوبر تک استنبول میں ہوا جس میں جنگ بندی برقرار رکھنے اور ایک مشترکہ فریم ورک بنانے اور مذاکرات جاری پر اتفاق ہوا تھا۔
مذاکرات کے دوران سرحد پر کشیدگی
جمعرات کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر پھر جھڑپوں کی اطلاعات آئیں جن کا الزام دونوں فریق ایک دوسرے پر لگا رہے ہیں۔
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ پاکستانی فورسز نے ڈیورنڈ لائن پر فائرنگ کی ہے جس سے لوگوں میں خوف وہراس پھیل گیا ہے۔
دوسری جانب پاکستان کی وزارت اطلاعات و نشریات نے دعویٰ کیا ہے کہ چمن اسپن بولدک بارڈر پر فائرنگ افغان فریق نے شروع کی۔
وزارت نے ٹویٹر پر لکھا کہ ہم افغان فریق کے پاکستان کی جانب سے فائرنگ کے دعوؤں کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔ فائرنگ افغانستان کی جانب سے شروع کی گئی تھی جس کا ہماری سکیورٹی فورسز نے فوری اور ذمہ داری سے جواب دیا۔'






