
ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار ظہران ممدانی امریکہ کے شہر نیو یارک کے میئر منتخب ہوگئے ہیں۔
انہوں نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی ہے اور یوں وہ پہلے مسلمان، پہلے جنوبی ایشیائی اور اب تک سب سے کم عمر میئر ہیں۔
انہوں نے وکٹری سپیچ میں کہا کہ ’میرے دوستو، ہم نے ایک سیاسی خاندان کو شکست دے دی ہے۔ میں اینڈریو کوومو کے لیے ان کی نجی زندگی میں صرف بہترین کا خواہشمند ہوں۔ لیکن آج رات آخری دفعہ ہو گا جب میں ان کا نام لے رہا ہوں‘۔
ظہران ممدانی کون ہیں؟
نیو یارک سٹی کے نومنتخب میئر ظہران ممدانی کئی حوالوں سے منفرد ہیں۔ وہ 1892 کے بعد شہر کے سب سے کم عمر میئر بنے ہیں، اس کے ساتھ ہی وہ پہلے مسلمان اور پہلے افریقی نژاد میئر ہیں۔
انہوں نے گزشتہ سال اس وقت انتخابی دوڑ میں حصہ لیا جب ان کا نام زیادہ معروف نہیں تھا، ان کے پاس وسائل کم تھے اور انہیں پارٹی کی جانب سے کوئی باضابطہ حمایت حاصل نہیں تھی۔
یہی بات ان کی سابق گورنر اینڈریو کومو اور ریپبلکن امیدوار کرٹس سیلوا پر جیت کو غیر معمولی بناتی ہے۔
لیکن اس سے بڑھ کر، ممدانی اس قسم کے سیاست دان کی نمائندگی کرتے ہیں جس کی ڈیموکریٹک پارٹی کے بائیں بازو کے لوگ کئی برسوں سے تلاش میں تھے۔

یہ سوال اب بھی باقی ہے کہ ممدانی اپنے پرعزم وژن کو کس طرح عملی شکل دیں گے۔
اپنی ’افورڈیبیلٹی مشن‘ کے تحت انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ عوامی بس سروس مفت ہوگی، تمام بچوں کے لیے یونیورسل چائلڈ کیئر فراہم کی جائے گی اور کرایوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔
ان کا منصوبہ ہے کہ ان پروگراموں کے لیے فنڈز کارپوریشنز اور امیر شہریوں پر ٹیکس بڑھا کر حاصل کیے جائیں۔ تاہم اس کے لیے انہیں نہ صرف نیویارک سٹی بلکہ اسمبلی میں بھی حمایت کا ایک مضبوط اتحاد قائم کرنا ہوگا۔
جب وہ یکم جنوری کو عہدہ سنبھالیں گے تو انہیں اعتدال پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بائیں بازو کے حامیوں، خصوصاً ڈیموکریٹک سوشلسٹس آف امریکا جیسی تنظیموں کو بھی ساتھ رکھنا ہوگا۔
کچھ سینئر ڈیموکریٹس، جن میں سینیٹ کے اقلیتی رہنما چک شومر بھی شامل ہیں، اب تک ممدانی کی حمایت سے گریز کر رہے ہیں حالانکہ ممدانی کو سابق صدر ٹرمپ کی جانب سے نیویارک کی وفاقی فنڈنگ میں کٹوتی اور نیشنل گارڈ کو شہر میں تعینات کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
برونکس کے رہائشی 33 سالہ آندرے آگسٹین کو ممدانی کے سامنے آنے والے چیلنجز کا بخوبی اندازہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں یہ نہیں کہوں گا کہ یہ آسان ہوگا، لیکن میرے خیال میں ایک واضح وژن رکھنا بہت ضروری ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’مجھے لگتا ہے یہ مشکل ہوگا، لیکن ہم ان پر دباؤ ڈالیں گے۔ ہم انہیں ان کے وعدوں کا جواب دہ بنائیں گے۔‘

’ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے‘
بروکلین میں اپنی انتخابی تقریب کے دوران ممدانی نے ووٹرز کے اسی جذبۂ امید کو سراہا اور ان سب کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ’یہ یقین کیا کہ ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔‘
انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ ایک وسیع اتحاد تشکیل دیں گے جس میں یہودی اور مسلمان نیویارکرز دونوں شامل ہوں گے تاکہ جرات مندانہ قیادت کے ایک ’نئے دور‘ کا آغاز کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ’اب نیویارک وہ شہر نہیں رہے گا جہاں اسلاموفوبیا کو ہوا دے کر الیکشن جیتا جا سکے،‘
یہ بات انہوں نے انتخابی مہم کے دوران کومو کی جانب سے کی گئی تنقیدوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہی۔






