
امریکہ نے آخری بار 1992 میں نیوکلیئر ہتھیاروں کے تجربات کیے تھے اور اب 33 برس بعد دوبارہ تجربات کی اجازت دی گئی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فوج کو نیوکلیئر ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔ امریکہ نے آخری بار 1992 میں نیوکلیئر ہتھیاروں کے تجربات کیے تھے اور اب 33 برس بعد دوبارہ تجربات کی اجازت دی گئی ہے۔ جمعرات کو ڈونلڈ ٹرمپ کی چائنیز صدر شی جن پنگ سے جنوبی کوریا میں ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات سے کچھ دیر قبل ٹرمپ نے یہ احکامات جاری کیے اور عین اس وقت اعلان کیا جب وہ شی جن پنگ سے ملاقات کے لیے ہیلی کاپٹر میں روانہ ہو رہے تھے۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہوں نے پینٹاگون کو ہدایت کی ہے کہ وہ جیسے دوسری جوہری طاقتیں تجربات کر رہی ہیں، ان کے برابر ہی نیوکلیئر ہتھیاروں کے تجربات شروع کریں۔
ٹرمپ کے بقول انہوں نے محکمۂ جنگ کو یہ ہدایات اس لیے دی ہیں کیوں کہ دوسرے ملک بھی تجربات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ٹرمپ کے بقول امریکہ اپنے جوہری ہتھیاروں کے تجربات فوری طور پر شروع کر دے گا۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکہ کے پاس سب سے زیادہ جوہری ہتھیار ہیں۔ روس دوسرے اور چائنہ تھوڑے زیادہ فرق کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے لیکن وہ اگلے پانچ سالوں میں ہمارے برابر ہی پہنچ جائے گا۔
'چین نے پچھلے پانچ سالوں میں ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ دوگنا کر لیا'
ٹرمپ کا ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب چین نے اپنے ایٹمی ذخیرے میں تیزی سے اضافہ کیا ہے۔ اور روس نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ اس نے ایٹمی صلاحیت رکھنے والے کروز میزائل اور ایک ایٹمی ٹارپیڈو کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔
ٹرمپ نے رواں ہفتے روسی تجربات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'صدر پوتن کو میزائل تجربات کرنے کے بجائے یوکرین میں جنگ ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔'
واشنگٹن کے تھنک ٹینک سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے مطابق چین کے پاس 2020 میں 300 ایٹمی ہتھیاروں تھے جو 2025 میں تقریباً 600 تک پہنچ گئے ہیں۔ یعنی صرف پانچ سال میں دوگنا اضافہ۔
امریکی فوجی حکام کا اندازہ ہے کہ چین کے پاس 2030 تک ایک ہزار سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہوں گے۔
ستمبر میں منعقد ہونے والی وِکٹری ڈے پریڈ میں چین نے پانچ ایسے ایٹمی نظاموں کی نمائش کی جو براعظم امریکہ تک پہنچ سکتے ہیں۔
آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے مطابق امریکہ کے پاس 5,225 اور روس کے پاس 5,580 ایٹمی وار ہیڈز ہیں۔
ٹرمپ کے اعلان پر ردعمل
ٹرمپ کے اعلان کے فوراً بعد شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ نیواڈا سے تعلق رکھنے والی ڈیموکریٹ رکنِ کانگریس ڈائنا ٹائٹس نے ایکس پر لکھا 'میں اس اقدام کو روکنے کے لیے قانون سازی کراؤں گی۔'
آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر ڈیریل کمبل نے کہا کہ امریکہ کو نیواڈا کی ایٹمی ٹیسٹ سائٹ پر زیرِ زمین ایٹمی تجربات دوبارہ شروع کرنے میں کم از کم 36 مہینے لگیں گے۔
انہوں نے کہا کہ 'ٹرمپ غلط فہمی میں ہیں۔ امریکہ کو 1992 کے بعد سے ایٹمی دھماکوں کے تجربات دوبارہ شروع کرنے کی کوئی تیکنیکی، عسکری یا سیاسی ضرورت نہیں ہے۔'
یہ واضح نہیں کہ ٹرمپ کا اشارہ ایٹمی دھماکے کے تجربات کی طرف تھا یا ایٹمی میزائلوں کی پرواز کے تجربات کی جانب۔
کمبل نے خبردار کیا کہ اگر امریکا نے ایٹمی تجربہ کیا تو 'ایک چین ری ایکشن کو جنم دے سکتا ہے، جس میں روس، چین اور دیگر ممالک بھی تجربات شروع کر سکتے ہیں اور ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
امریکہ نے آخری بار 1992 میں ایٹمی ہتھیار کا تجربہ کیا تھا۔ 1990 کی دہائی میں تقریباً تمام بڑی ایٹمی طاقتوں نے دھماکوں کے تجربات روک دیے تھے۔ تاہم شمالی کوریا نے 2017 میں آخری ایٹمی تجربہ کیا تھا۔
امریکا نے پہلا ایٹمی تجربہ جولائی 1945 میں نیو میکسیکو کے علاقے الاموگورڈو میں کیا تھا، جس کے فوراً بعد اگست میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے گئے، جن سے دوسری عالمی جنگ کا اختتام ہوا۔






