
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ وہ نیوکلیئر ہتھیاروں کے تجربات فوراً دوبارہ شروع کرے۔ یہ اعلان ایسے وقت میں کیا گیا جب انہوں نے چند دن پہلے ہی چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی تھی۔
روئٹرز کے مطابق امریکی صدر کی جانب سے 33 سال کے وقفے کے بعد نیوکلر ہتھیاروں کے تجربات کی دوبارہ اجازت دی گئی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اب تک کتنے نیوکلیئر ہتھیاروں کے تجربات ہو چکے ہیں؟ یہ تجربات کیوں بند کیے گئے تھے؟ اور کوئی انہیں دوبارہ شروع کیوں کرنا چاہے گا؟
نیوکلیئر ہتھیاروں کا دور
امریکہ جولائی 1945 میں اُس وقت نیوکلیئر ملک بنا تھا جب نیو میکسیکو کے شہر الموگورڈو میں 20 کلوٹن ایٹمی بم کا تجربہ کیا گیا۔
اس کے بعد اگست 1945 میں امریکہ نے جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی بم گرائے تاکہ دوسری عالمی جنگ میں جاپان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا جا سکے۔
پھر سوویت یونین نے مغربی ممالک کو اُس وقت حیران کر دیا جب اس نے صرف چار سال بعد، اگست 1949 میں اپنا پہلا نیوکلیئر بم دھماکہ کیا۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق 1945 سے 1996 میں کمپری ہینسیو نیوکلیئر ٹیسٹ بین ٹریٹی کے دستخط تک تقریباً 2000 نیوکلیئر ٹیسٹ کیے گئے، جن میں سے ایک ہزار 32 ٹیسٹ امریکہ نے کیے، 715 ٹیسٹ سوویت یونین نے کیے، برطانیہ نے 45 ٹیسٹ کیے، فرانس نے 210 ٹیسٹ کیےاور چین نے 45 ٹیسٹ کیے۔
کمپری ہینسیو نیوکلیئر ٹیسٹ بین ٹریٹی کے بعد، اب تک صرف 10 نیوکلیئر ٹیسٹ ہوئے ہیں: انڈیا نے 1998 میں دو ٹیسٹ کیے اور پاکستان نے 1998 میں دو ٹیسٹ کیے، شمالی کوریا نے 2006، 2009، 2013، 2016 (دو بار) اور 2017 میں ٹیسٹ کیے۔
امریکہ نے آخری بار 1992 میں نیوکلیئر ہتھیار کا تجربہ کیا، چائنہ اور فرانس نے 1996 میں اور سوویت یونین نے 1990 میں آخری بار تجربات کیے البتہ روس نے کبھی نیوکلیئر وار ہیڈ کا تجربہ نہیں کیا۔
روس نے پچھلے ہفتے نیوکلیئر ڈرلز کی تھیں اور نیوکلیئر پاورڈ کروز میزائل اور نیوکلیئر پاورڈ ٹورپیڈو کا تجربہ کیا تھا، لیکن نیوکلیئر وار ہیڈ کا تجربہ ابھی تک نہیں کیا۔
نیوکلیئر ٹیسٹنگ کیوں ختم کی گئی؟
ماہرین کو نیوکلیئر ٹیسٹنگ کے اثرات کے بارے میں فکر بڑھ گئی تھی۔ نیوکلیئر ٹیسٹنگ چاہے زمین کے اوپر، زمین کے نیچے یا پانی کے اندر ہوں، انسانی صحت اور ماحول پر سنگین اثر ڈالتے ہیں۔
مغربی ممالک کے پیسفک ریجن میں ٹیسٹ اور سوویت یونین کے قازقستان اور آرکٹک ریجن میں ٹیسٹ نے ماحول اور لوگوں پر نمایاں اثرات ڈالے تھے۔
سماجی، سیاسی اور ماحولیاتی کارکن کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں نیوکلیئر ٹیسٹنگ کی گئی وہاں لاکھوں لوگوں کی زمینیں ریڈیو ایکٹو مواد یا دیگر خطرناک مادوں سے متاثر ہوئیں اور انہیں دہائیوں تک صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
نیوکلیئر ٹیسٹنگ کو محدود کرنے سے کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی کم کی جا سکتی ہے۔
کمپریہینسیو نیوکلیئر ٹیسٹ بین ٹریٹی ہر کسی کے لیے ہر جگہ نیوکلیئر دھماکوں پر پابندی لگاتا ہے۔ روس نے 1996 میں معاہدے پر دستخط کیے اور 2000 میں اسے باضابطہ طور پر تسلیم کیا۔امریکہ نے 1996 میں دستخط کیے لیکن اسے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔
پھر 2023 میں صدر ولادیمیر پوتن کمپریہینسیو نیوکلیئر ٹیسٹ بین ٹریٹی سے نکل گیا۔
دوبارہ نیوکلیئر ٹیسٹ کیوں کیے جارہے ہیں؟
نیوکلیئر ٹیسٹ کرنے کے دو بنیادی مقاصد ہو سکتے ہیں: معلومات جمع کرنا یا کسی پیغام کو واضح کرنا۔
روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق نیوکلیئر ٹیسٹنگ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی نیا نیوکلیئر ہتھیار مزید کیا کرسکتا ہے اور یہ بھی کہ کیا پرانے ہتھیار ابھی بھی کام کر رہے ہیں یا نہیں۔
2020 میں واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ کیا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے یہ بحث کی کہ نیوکلیئر ٹیسٹ کرنا چاہیے یا نہیں۔ ٹیکنیکل ڈیٹا فراہم کرنے کے علاوہ یہ ٹیسٹ روس اور چائنہ کے لیے امریکہ کی اسٹریٹیجک طاقت کا واضح اشارہ سمجھا جائے گا۔
پوتن نے بارہا وارننگ دی ہے کہ اگر امریکہ دوبارہ نیوکلیئر ٹیسٹ کرے گا تو روس بھی کرے گا۔ پوتن کے مطابق عالمی نیوکلیئر ہتھیاروں کی دوڑ پہلے ہی جاری ہے۔
کن ممالک کے پاس کتنے وارہیڈز ہیں؟
ہر ملک کے پاس کتنے وار ہیڈز ہیں، یہ مکمل طور پر واضح تو نہیں، لیکن فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس کے مطابق روس کے پاس تقریباً 5,459 وار ہیڈز ہیں اور امریکہ کے پاس تقریباً 5,177 وار ہیڈز ہیں۔
دوسری جانب واشنگٹن ڈی سی کی آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے مطابق امریکہ کے پاس 5,225 نیوکلیئر وار ہیڈز ہیں اور روس کے پاس 5,580 وار ہیڈز ہیں۔
عالمی نیوکلیئر وار ہیڈز کی تعداد 1986 میں اپنے عروج پر تھی، یعنی 70,000 سے زیادہ تھی، جن میں زیادہ تر وار ہیڈز سوویت یونین اور امریکہ کے پاس تھے۔ تب سے یہ تعداد کم ہو کر تقریباً 12,000 رہ گئی ہے، جن میں زیادہ تر اب بھی روس اور امریکہ کے پاس موجود ہیں۔
فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس کے مطابق دیگر ممالک کے وار ہیڈز کی تعداد یہ ہے: چائنہ: 600، فرانس: 290، برطانیہ: 225، انڈیا: 180، پاکستان: 170، اسرائیل: 90 اور شمالی کوریا کے پاس 50 وار ہیڈز ہیں۔ روس، امریکہ اور چائنہ اپنے نیوکلیئر ہتھیاروں کے ذخائر میں بڑے پیمانے پر موڈرنائز کر رہے ہیں۔






