
سینیٹ کا اجلاس اس وقت جاری ہے، جہاں 27ویں آئینی ترمیم کےمعاملے پر بحث جاری ہے۔
پاکستان کے ایوانِ بالا سینیٹ میں ستائیسویں آئینی ترمیم کے بل پر پارلیمانی کیمیٹیوں کی رپورٹ پیش کر دی گئی ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین فاروق ایچ نائیک کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی اور بتایا گیا کہ 27 ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں کچھ شقوں میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
دوسری جانب مقامی میڈیا کے مطابق اپوزیشن نے 27 ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کرتے ہوئے اس کی منظوری کے لیے ووٹنگ کے عمل کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے۔
کتنے ووٹ درکار ہوتے ہیں؟
آئینی ترمیم کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔
سینیٹ میں کل 96 اراکین ہیں، اس لیے بل کی منظوری کے لیے کم از کم 64 ووٹوں کی ضرورت ہوگی۔ تاہم حکمران اتحاد کے پاس سینیٹ میں دو تہائی اکثریت موجود نہیں ہے۔ اس کے 61 ارکان ہیں، لہٰذا بل کی منظوری کے لیے اسے اپوزیشن کے کم از کم تین ووٹوں کی ضرورت ہوگی۔
سینیٹ سے منظوری کے بعد یہ بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا، جس کا اجلاس آج شام 4 بجکر 30 منٹ پر طلب کیا گیا ہے۔
336 رکنی قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل ہے۔ اس کے 233 ارکان ہیں جبکہ اپوزیشن کے پاس 103 نشستیں ہیں۔
حکمران اتحاد میں (ن) لیگ کے 125، پیپلز پارٹی کے 74، ایم کیو ایم پاکستان کے 22، (ق) لیگ کے 5، استحکامِ پاکستان پارٹی کے 4 جبکہ پی ایم ایل (ض)، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پیپلز پارٹی کے ایک، ایک رکن شامل ہیں۔
پارلیمانی کمیٹیوں کی منظوری
27ویں آئینی ترمیم کے بل کو ہفتے کے روز وفاقی کابینہ کی منظوری کے چند گھنٹے بعد اور اپوزیشن کے شور شرابے کے دوران سینیٹ میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیش کیا تھا، یہ بل دراصل ایک وفاقی آئینی عدالت کے قیام اور جس افسر کو فیلڈ مارشل کا رینک دیا جائے گا، وہ یہ عہدہ زندگی بھر اپنے پاس رکھے گا، چاہے وہ فوج سے ریٹائر بھی کیوں نہ ہو جائے۔
اتوار کو سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں برائے قانون اور انصاف کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کے بائیکاٹ کے باوجود 27ویں آئینی ترمیمی بل کو معمولی تبدیلیوں کے ساتھ منظور کر لیا گیا۔
اجلاس میں ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار بھی شریک تھے۔ انہوں نے کہا کہ تمام اہم ترامیم، بشمول آرٹیکل 243 میں تبدیلیاں، جو کہ وفاقی حکومت کو ’ٓافواجِ پاکستان پر کنٹرول اور کمانڈ‘ کا اختیار ہوگا، دونوں کمیٹیوں نے اتفاقِ رائے سے منظور کر لیں۔
البتہ کمیٹیوں نے ایم کیو ایم کی آرٹیکل 140 (جو بلدیاتی حکومتوں سے متعلق ہے) میں ترمیم کی تجویز اور اے این پی کی خیبرپختونخوا کا نام تبدیل کرنے کی سفارش مؤخر کر دی۔
اے این پی نے تجویز دی تھی کہ صوبے کے نام سے ’خیبر‘ کو ہٹا دیا جائے، کیونکہ یہ ایک ضلع ہے اور دیگر صوبوں کے ناموں میں کسی ضلع کا ذکر شامل نہیں۔ اسی طرح، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کی جانب سے پارلیمنٹ میں بلوچستان کی نشستیں بڑھانے کی تجویز بھی مؤخر کر دی گئی۔











