پاکستان اور افغانستان کی صورتِ حال پر ترکیہ کے اعلیٰ حکام آئندہ ہفتے اسلام آباد کا دورہ کریں گے: رجب طیب اردوان

10:1410/11/2025, پیر
جنرل10/11/2025, پیر
AA
ویب ڈیسک
فائل فوٹو
فائل فوٹو

ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تناؤ کے معاملے پر اعلیٰ ترک حکام جلد اسلام آباد کا دورہ کریں گے۔

اتوار کو آذربائیجان کے دورے سے واپسی پر اپنے ایک بیان میں صدر اردوان نے کہا کہ ترک وزیرِ خارجہ حاقان فیدان، وزیر دفاع یاسر گولیر اور انٹیلی جینس چیف ابراہیم کالن آئندہ ہفتے پاکستان کا دورہ کریں گے۔

واضح رہے کہ پاکستان اور افغانستان کی جھڑپوں کے بعد ترکیہ اور قطر دونوں ملکوں کے مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کر رہے تھے۔ لیکن گزشتہ ہفتے مذاکرات کا تیسرا دور بے نتیجہ ختم ہو گیا تھا اور دونوں فریقین کسی حتمی حل پر نہیں پہنچ سکے تھے۔

گزشتہ ماہ دونوں ممالک کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئی تھیں جب پاکستان نے افغانستان میں فضائی حملے کیے تھے جن کے بارے میں اسلام آباد کا کہنا تھا کہ وہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے منسلک ٹھکانوں پر کیے گئے۔ پاکستان، افغان طالبان پر الزام لگاتا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی اور دیگر گروہوں کو پناہ دے رہے ہیں جب کہ طالبان اس کی تردید کرتے ہیں۔

تاہم اب ترکیہ کا اعلیٰ سطح کا وفد پاکستان کا دورہ کرے گا جس میں مذاکرات سے متعلق آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ ترکیہ پاکستان میں دہشت گرد حملوں اور اسلام آباد و کابل کے درمیان کشیدگی کو قریب سے دیکھ رہا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مذاکرات دیرپا استحکام کی جانب مثبت نتائج دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس سہ فریقی دورے کا مقصد اسلام آباد اور کابل کے درمیان ایک مستقل جنگ بندی اور امن معاہدے پر جلد از جلد مہر ثبت کرنا ہے۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ کا ردعمل

دوسری جانب پاکستان کے دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے کبھی بھی کابل میں کسی حکومت کے ساتھ بات چیت سے گریز نہیں کیا۔

بیان کے مطابق پاکستان کا مقصد ہمیشہ افغانستان کے ساتھ تعمیری روابط رکھنا رہا ہے تاکہ وہ ایک مستحکم، پُرامن اور خوش حال ملک بن سکے جو اپنے اندر اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن میں رہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ افغان حکومت ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسند عناصر کو افغانستان میں 'مہاجرین' کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو کہ ایک 'چال' ہے۔

دفترِ خارجہ کے مطابق پاکستان کسی بھی پاکستانی شہری اور ان کے خاندانوں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے جو افغانستان میں مقیم ہیں۔ بشرط یہ کہ انہیں طورخم یا چمن کی سرحدی گزرگاہوں پر باضابطہ طور پر حوالے کیا جائے، نہ کہ انہیں جدید ہتھیاروں اور آلات سے لیس کر زبردستی سرحد پار دھکیلا جائے۔

افغانستان کی جانب سے ان مذاکرات یا پاکستانی دفترِ خارجہ کے بیان پر فوری طور پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

غزہ اور سوڈان سے متعلق صدر اردوان کا بیان

صدر اردوان نے اپنے بیان میں غزہ کا بھی ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکیہ سے غزہ امدادی سامان بھیجنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں اور وہ فلسطینیوں کی ہر ممکن مدد کریں گے۔

انہوں نے غزہ میں امدادی اور ضروری اشیا کی فراہمی ترجیحی بنیادوں پر پہنچانے کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ یہ امداد کا معاملہ نہیں بلکہ انسانیت کا معاملہ ہے۔

سوڈان میں جاری خانہ جنگی پر صدر اردوان کا کہنا تھا کہ ترکیہ اس معاملے میں تماشائی نہیں بنے گا بلکہ ملک میں امن اور سیکیورٹی کے لیے اپنی سفارتی کوششیں جاری رکھے گا۔

صدر اردوگان نے امریکہ کی جانب سے ترکیہ کو ایف 35 طیاروں کی فراہمی کے معاملے پر کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ان کی حالیہ بات چیت میں اس ضمن میں مثبت قدم اٹھائے گئے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ امریکہ اپنے وعدوں کا پاس رکھے گا۔

##ترکیہ
##پاکستان
##افغانستان
##مذاکرات