
پاکستان کی وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد سینیٹ میں 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ پیش کیا گیا جس میں آئینی عدالت کے قیام، مسلح افواج سے متعلق آئین کے آرٹیکل 243 میں تبدیلی اور ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلوں سے متعلق تجاویز زیرِ غور ہیں۔
پاکستان کی وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد سینیٹ میں 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ پیش کیا گیا جس میں آئینی عدالت کے قیام، مسلح افواج سے متعلق آئین کے آرٹیکل 243 میں تبدیلی اور ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلوں سے متعلق تجاویز زیرِ غور ہیں۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ اجلاس کے دوران اپنی تقریر میں کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ تجاویز پر مبنی ہے اور جب تک پارلیمان کی دو تہائی اکثریت اس کی حمایت نہیں کرے گی تب تک یہ آئین کا حصہ نہیں بنے گا۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آرٹیکل 243 میں ترمیم کے ذریعے آرمی چیف کو چیف آف ڈیفینس فورسز بنانے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ وفاقی آئینی عدالت کے قیام سے آئین کی 40 شقوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
آئیے جانتے ہیں کہ ستائسویں آئینی ترمیم کے مسودے میں مزید کیا کیا شامل ہیں؟
1. وفاقی آئینی عدالت کا قیام:
ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کے الگ ایک نئی وفاقی آئینی عدالت قائم کی جائے گی، جو آئینی معاملات نمٹائے گی اور حکومتوں کے درمیان تنازعات کا فیصلہ کرے گی۔
اس کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے کچھ اختیارات اس نئی عدالت کو منتقل کر دیے جائیں گے۔
خیال رہے کہ گذشتہ سال 26ویں آئینی ترمیم کے تحت آئینی بینچ قائم کیا گیا تھا جسے اب آئینی عدالت کا درجہ دیا جا رہا ہے۔
مسودے کے مطابق آئینی عدالت کا سربراہ اس کا چیف جسٹس ہو گا جبکہ اس میں تمام صوبوں سے برابر تعداد میں ججز تعینات کیے جائیں گے۔
بطور آئینی عدالت کے جج کی تعیناتی کے لیے یہ شرائط رکھی گئی ہیں:
- وہ سپریم کورٹ میں بطور جج کام کر چکے ہوں۔
- ہائیکورٹ میں کم از کم سات سال جج رہے ہوں۔
- 20 سال تک ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں بطور ایڈووکیٹ کام کیا ہو اور
- سینیارٹی حاصل ہو۔
مجوزہ مسودے کے مطابق:
- صدرِ مملکت اور وزیرِ اعظم ججوں کی تقرری میں مرکزی کردار ادا کریں گے۔
- پارلیمنٹ ججوں کی تعداد کا تعین کرے گی۔
- وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی مدتِ ملازمت تین سال ہوگی۔
- تمام صوبوں کو اس نئی عدالت میں برابر نمائندگی حاصل ہوگی۔
- اس کےعلاوہ وفاقی آئینی عدالت کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 برس ہو گی۔
- وفاقی آئینی عدالت کے فیصلے تمام عدالتوں پر لازم ہوں گے۔
آرمی چیف کو چیف آف ڈیفینس فورسز بنانے کی تجویز: ’فیلڈ مارشل کا عہدہ تاحیات ہے‘
27ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں مسلح افواج سے متعلق کئی بڑی تجاویز دی گئی ہیں۔
- آرمی چیف کو چیف آف ڈیفینس فورسز بنانے کی تجویز دی گئی ہے۔
- فیلڈ مارشل، مارشل آف دی ایئر فورس اور ایڈمرل آف فلیٹ کے عہدوں کو آئینی استثنیٰ حاصل ہوگا، یعنی ان کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی جا سکے گی۔
- وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر آرمی چیف اور چیف آف ڈیفینس فورسز کو تعینات کریں گے۔
- چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ 27 نومبر 2025 کو ختم کر دیا جائے گا۔
حکومت فوج، فضائیہ اور بحریہ کے اعلیٰ افسروں کو فیلڈ مارشل، مارشل آف ایئر فورس یا ایڈمرل آف فلیٹ کے رینک پر ترقی دے سکے گی۔
یہ عہدے تاحیات ہوں گے، یعنی ایک بار ملنے کے بعد ان کا درجہ اور مراعات زندگی بھر برقرار رہیں گی۔
وزیرِ قانون کے مطابق یہ عہدے قومی ہیروز کے لیے ہوں گے اور دنیا بھر میں یہ خطاب تاحیات دیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان عہدوں کو آئینی تحفظ دیا گیا ہے اور ان کا مواخذہ یا خاتمہ صرف پارلیمان کر سکتی ہے، وزیراعظم یا حکومت نہیں۔
مزید کہا گیا کہ جب فیلڈ مارشل اپنی کمان چھوڑ دیں گے تو وفاقی حکومت انہیں اعزازی یا مشاورتی کردار میں خدمات جاری رکھنے کی اجازت دے سکے گی۔
استثنیٰ کا کیا مطلب ہے اور پاکستان میں کس کو حاصل ہے؟
استثنیٰ کا مطلب ہے کہ کسی شخص کے خلاف قانونی یا فوجداری کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ یعنی اسے عدالت میں طلب نہیں کیا جا سکتا، گرفتار نہیں کیا جا سکتا اور سزا نہیں دی جا سکتی۔
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 248 کے مطابق: صدرِ مملکت اور گورنر کو اپنے عہدے کی مدت کے دوران کسی بھی فوجداری مقدمے سے استثنیٰ حاصل ہے۔ اس مدت میں ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں چل سکتا اور نہ ہی عدالت انہیں گرفتار یا سزا دے سکتی ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق جب تک کوئی شخص صدر کے عہدے پر فائز ہے، اس پر کوئی فوجداری مقدمہ نہیں چل سکتا۔ لیکن جب وہ عہدہ چھوڑ دے، تو استثنیٰ ختم ہو جاتا ہے۔
قانونی ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ان دنوں تاحیات استثنیٰ کی بات ہو رہی ہے، جو کسی مہذب ملک میں قابلِ قبول نہیں۔ استثنیٰ صرف عہدے کی مدت تک ہونا چاہیے، بعد میں نہیں۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ استثنیٰ مانگنا کمزوری کی علامت ہے۔ ان کے مطابق صدر کو عدالت میں طلب کرنا مناسب نہیں، اسی لیے آئین نے اسے عہدے کے دوران استثنیٰ دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کا اختیار ختم
آئینی ترمیم کے مسودے کے مطابق سپریم کورٹ کی اصل جیورسڈکشن اور ازخود نوٹس اختیارات سے متعلق آرٹیکل 184 ختم کیا جا رہا ہے۔
اس سے پہلے آرٹیکل 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ کے پاس عوامی اہمیت کے حامل مسائل پر ازخود نوٹس لینے کا اختیار تھا جبکہ آرٹیکل 186 کے ذریعے وفاقی آئینی عدالت یا سپریم کورٹ کو انصاف کے تقاضوں کے مطابق کسی بھی کیس کو اپنے پاس ٹرانسفر کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلے کا اختیار
مسودے کے مطابق صدر کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی ہائی کورٹ کے جج کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی تجویز پر کسی اور ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کر سکتے ہیں۔
اس ترمیم میں اہم بات یہ ہے کہ اگر ہائی کورٹ کا کوئی جج تبادلے کو قبول نہیں کرتا تو اسے اپنے عہدے سے ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔
جبکہ یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ اگر ہائی کورٹ کا جج وفاقی آئینی عدالت کا سپریم کورٹ میں تعیناتی قبول نہیں کرتا تو اسے بھی ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔










