افغانستان میں زلزلے سے ہلاکتوں کی تعداد 800 ہوگئی، ’ایسا لگا کہ جیسے پورا پہاڑ ہل رہا ہے‘

09:481/09/2025, پیر
جنرل1/09/2025, پیر
ویب ڈیسک
متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔
متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔

زلزلے کے جھٹکے افغانستان کے مشرقی صوبوں سے لے کر کابل اور پاکستان تک محسوس کیے گئے جن کی شدت چھ ریکارڈ کی گئی۔ پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا اور دارالحکومت اسلام آباد اور آس پاس کے علاقوں میں بھی شدید جھٹکے محسوس کیے گئے۔

افغانستان میں اتوار کی رات زلزلے کے شدید جھٹکوں نے تباہی مچا دی ہے اور بھاری جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔

زلزلے کے جھٹکے افغانستان کے مشرقی صوبوں سے لے کر کابل اور پاکستان تک محسوس کیے گئے جن کی شدت ریکٹر اسکیل پر چھ تھی۔

امریکی جیولوجیکل سروے (یو ایس جی ایس) کے مطابق اتوار کی رات 11 بج کر 47 منٹ (پاکستانی وقت کے مطابق پیر 12 بج کر 17 منٹ) پر چھ شدت کا زلزلہ آیا جس کے بعد اب تک کم از کم تین آفٹر شاکس بھی آچکے ہیں جن کی شدت 4.5 اور 5.2 کے درمیان تھی۔

زلزلے کا مرکز افغانستان کے شہر جلال آباد اور پاکستان کی سرحد کے قریب آٹھ کلومیٹر گہرائی میں تھا جس کی وجہ سے سرحدی علاقوں میں بھاری جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔

پاکستان کے محکمہ موسمیات کے مطابق زلزلے کے جھٹکے اسلام آباد، مری، پشاور، ایبٹ آباد، اٹک سمیت خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں محسوس کیے گئے۔

افغانستان میں زلزلے سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبے کنڑ اور ننگرہار بتائے جا رہے ہیں جہاں کئی دیہات مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں۔ کچے مکانات ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں جن میں درجنوں لوگوں کے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔ امدادی ٹیمیں اور مقامی افراد رات گئے سے ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے میں مصروف ہیں جب کہ شدید زخمیوں کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے قریبی اسپتالوں تک پہنچایا جا رہا ہے۔

طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد 800 تک پہنچ گئی ہے جب کہ 2500 سے زیادہ افراد زخمی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر ہلاکتیں کنڑ صوبے میں ہوئی ہیں۔

’پورا گاؤں تباہ ہو گیا، ملبے سے لاشیں نکالنے والا بھی کوئی نہیں‘

کنڑ کے نرگل ضلعے کے ایک رہائشی نے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کو بتایا کہ اس کا پورا گاؤں تباہ ہو چکا ہے۔ بچے، بزرگ اور نوجوان سب ہی مکانات کے ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں مدد کی ضرورت ہے۔ ہمیں لوگوں کی ضرورت ہے جو ہمارے ساتھ امدادی کاموں میں حصہ لیں اور لوگوں کو ملبے سے نکالیں۔ یہاں ملبے سے لاشیں نکالنے والا کوئی نہیں۔

جس علاقے میں زلزلہ آیا ہے یہ پورا پہاڑی علاقہ ہے جہاں دور دراز آبادیاں اور دشوار گزار راستے ہیں۔ زلزلے کی وجہ سے رابطوں میں اور مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ ننگرہار کے ایئرپورٹ پر درجنوں پروازیں آپریٹ کی جا رہی ہیں جو زخمیوں کو اسپتالوں میں لے جا رہی ہیں۔

ایک عینی شاہد نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اس نے اپنی آنکھوں سے گھر تباہ ہوتے اور لوگوں کو مدد کے لیے پکارتے دیکھا۔

صادق اللہ جو نرگل کے علاقے میں ہی رہتے ہیں، نے بتایا کہ وہ سو رہے تھے کہ اچانک ایک دھماکے کی آواز سے ان کی آنکھ کھل گئی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی طوفان آ رہا ہو۔ صادق اللہ کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بچوں کی طرف بھاگے اور تین بچوں کو ریسکیو کر لیا۔ جب وہ واپس اپنی فیملی کے دیگر لوگوں کو اٹھانے کے لیے پلٹے تو کمرے کی چھت ان پر گر گئی۔

انہوں نے بتایا کہ ’میرا آدھا جسم ملبے کے اندر دبا ہوا تھا اور میں نکل نہیں پا رہا تھا۔ میری بیوی اور دو بچے ہلاک ہو گئے اور والد زخمی ہیں اور میرے ساتھ اسپتال میں ہیں۔ ہم تین، چار گھنٹے تک ملبے میں پھنسے رہے اور پھر دوسرے علاقوں سے لوگ پہنچنا شروع ہوئے اور ہمیں نکالا گیا۔‘

صادق اللہ کے بقول جب زلزلہ آیا تو ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے پورا پہاڑ ہل رہا ہے۔

طالبان حکام نے امدادی تنظیموں پر زور دیا ہے کہ وہ دور دراز پہاڑی علاقوں میں امدادی کارروائیوں میں مدد فراہم کریں۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے افغانستان میں زلزلے سے ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مدد کی پیش کش کی ہے۔

واضح رہے کہ افغانستان اس وقت غیر ملکی امداد میں کمی اور پناہ گزینوں کی بڑے پیمانے پر واپسی جیسے بڑے بحرانوں کا سامنا کر رہا ہے۔

افغانستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو قدرتی آفات، بالخصوص زلزلوں سے شدید متاثر ہوتے ہیں۔ گزشتہ برس افغانستان میں زلزلوں سے ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

##افغانستان
##زلزلہ
##پاکستان