
انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف جینوسائیڈ اسکالرز نسل کشی پر کام کرنے والے ماہرین کی سب سے بڑی اکیڈمک تنظیم ہے جو 1994 میں قائم ہوئی تھی۔
نسل کشی پر کام کرنے والے اسکالرز کی سب سے بڑی تنظیم نے غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کو نسل کشی قرار دے دیا ہے۔ تنظیم کی صدر نے کہا ہے کہ اسرائیل کے اقدامات کو دیکھتے ہوئے اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ غزہ میں نسل کشی میں ملوث ہے۔
انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف جینوسائیڈ اسکالرز نسل کشی پر کام کرنے والے ماہرین کی سب سے بڑی اکیڈمک تنظیم ہے جو 1994 میں قائم ہوئی تھی۔ اس کے 500 اراکین میں سے 86 فیصد نے اسرائیلی پالیسیوں اور اقدامات کو نسل کشی قرار دیا ہے۔
ان اراکین نے اس قرارداد کی حمایت میں ووٹ دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ غزہ میں اسرائیل کے اقدامات اور پالیسیاں نسل کشی کی اس قانونی تعریف پر پورا اترتی ہیں جو اقوامِ متحدہ کے کنوینشن آن جینوسائیڈ 1948 میں بیان کی گئی ہے۔
اقوامِ متحدہ کا کنونشن برائے انسدادِ نسل کشی نازی جرمنی کے ہاتھوں یہودیوں کے بڑے پیمانے پر قتل عام کے بعد 1948 میں منظور کیا گیا تھا۔ اس میں نسل کشی کی تعریف یہ دی گئی ہے کہ ’ایسے جرائم جو کسی قومی، نسلی، لسانی یا مذہبی گروہ کو مکمل یا جزوی طور پر ختم کرنے کے ارادے سے کیے جائیں۔‘ یہ کنونشن تمام ممالک کو اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ نسل کُشی کو روکنے اور ختم کرنے کے لیے اقدامات کریں۔
اسکالرز کی تنظیم کی جانب سے منظور کی گئی تین صفحات پر مشتمل قرارداد میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ’فوری طور پر غزہ میں نسی کشی کے اقدامات کو روکے۔ فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم، شہریوں اور بچوں کا قتل فوری بند کرے۔ غزہ میں بھوک، امداد کی قلت، پانی، فیول اور دیگر اشیائے ضرورت کی قلت، لوگوں پر جنسی تشدد اور لوگوں کو جبری طور پر بے دخل کرنے کے اقدامات سے باز آئے۔‘
قرارداد میں حماس کے سات اکتوبر 2023 کے حملے کو بھی بین الاقوامی جرم قرار دیا گیا ہے۔
تنظیم کی صدر میلانی اوبرائین نے کہا ہے کہ ’یہ نسل کشی پر تحقیق کرنے والے ماہرین کی طرف سے واضح پیغام ہے کہ غزہ میں جو ہو رہا ہے وہ نسل کشی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کی کوئی توجیہ پیش نہیں کی جا سکتی اور انہیں سیلف ڈیفینس قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اسرائیل کی وزارتِ خارجہ نے اس قرارداد کو شرم ناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ’حماس کی جھوٹ پر مبنی مہم‘ ہے۔ اسرائیل ماضی میں بھی نسل کشی کے الزامات کی سختی سے تردید کرتا رہا ہے۔ لیکن اسے بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں بھی نسل کشیِ کے الزامات کا سامنا ہے۔
تاہم حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے میڈیا آفس کے سربراہ اسماعیل الثوابتہ نے اس قرار داد کا خیرمقدم کیا اور اسے ایک ’باوقار علمی مؤقف‘ قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ عالمی برادری پر ’قانونی اور اخلاقی ذمے داری‘ عائد کرتا ہے کہ وہ فوری اقدامات کرے تاکہ اس جرم کو روکا جا سکے، شہریوں کو تحفظ دیا جا سکے اور قابض افواج کے رہنماؤں کو جواب دہ ٹھہرایا جا سکے۔‘
انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف جینوسائیڈ اسکالرز نے اپنے قیام کے بعد سے اب تک صرف نو قراردادیں منظور کی ہیں جن میں ماضی یا حال کے کسی واقعے کو نسل کشی قرار دیا گیا ہے۔