
چابہار پورٹ کو پاکستان کے گوادر پورٹ کا متبادل اور مقابل بھی قرار دیا جاتا رہا ہے۔
امریکہ نے ایران کے چابہار پورٹ کے لیے پابندیوں سے استثنیٰ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انڈیا کو اس کا بڑا نقصان ہوگا۔ انڈیا کے لیے یہ پورٹ بہت اہمیت رکھتا ہے کیوں کہ اس کے ذریعے وہ پاکستان پر انحصار کیے بغیر افغانستان اور سینٹرل ایشیا تک پہنچ سکتا ہے۔امریکی محکمۂ خارجہ نے جمعرات کو اعلان کیا کہ امریکہ کی جانب سے ایران پر جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں اب چابہار پورٹ بھی ان پابندیوں کے دائرے میں آئے گا اور اس پورٹ سے جڑے تمام آپریشنز پر 29 ستمبر سے وہ پابندیاں عائد ہوں گی۔
امریکی انتظامیہ کے مطابق پابندیوں سے استثنیٰ ختم کرنے کا فیصلہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایرانی حکومت پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی پالیسی کا حصہ ہے۔ استثنیٰ ختم ہونے کے بعد جو بھی شخص چابہار پورٹ کو آپریٹ کرے گا یا اس پر دیگر سرگرمیوں میں ملوث ہوگا، وہ بھی پابندیوں کی زد میں آئے گا۔

مگر اب اس نئے فیصلے سے انڈیا کو بہت نقصان ہوگا کیوں کہ انڈیا اس پورٹ کو ڈویلپ کرنے پر کام کر رہا ہے۔ انڈیا کی ایک سرکاری کمپنی چابہار پورٹ پر ٹرمینل بنا رہی ہے اور انڈیا اسے اپنی علاقائی تجارت اور رابطوں کے لیے ایک اہم بندرگاہ سمجھتا ہے۔
رواں سال مئی میں ایران اور انڈیا نے چابہار پورٹ پر آپریشنز سے متعلق ایک 10 سالہ معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کے تحت انڈیا نے انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کے لیے 25 کروڑ ڈالر قرض دینے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔
اس سے قبل یہ خبر بھی سامنے آئی تھی کہ چابہار پورٹ پر آپریٹ کرنے والی انڈین کمپنی اس کی گنجائش بڑھانے اور اسے ایران کے ریلوے نیٹ ورک سے جوڑنے پر غور کر رہی تھی۔
چابہار بندرگاہ انڈیا اور ایران کا ایک بڑا منصوبہ ہے جو خطے میں تجارتی اور اسٹرٹیجک اہمیت رکھتا ہے۔ یہ منصوبہ انڈیا کے وسطی ایشیا اور افغانستان کے ساتھ تجارتی روابط کے لیے بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ چابہار پورٹ کو پاکستان کے گوادر پورٹ کا متبادل اور مقابل بھی قرار دیا جاتا رہا ہے۔