
فلسطینی مذاحمتی تنظیم حماس کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے مذاکرات آئندہ ہفتے دوبارہ شروع ہونے کا امکان ہے۔
حماس کے عہدیدار باسم نعیم نے جمعے کو کہا کہ انہیں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی وفد آئندہ ہفتے کے شروع میں مشاورت کے لیے دوحہ جائے گا۔
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکا نے قطر میں موجود اپنی مذاکراتی ٹیم کو واپس بلا لیا ہے اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی سفیر اسٹیو وٹکوف نے کہا ہے کہ حماس جنگ بندی میں سنجیدہ نظر نہیں آرہی۔
وٹکوف نے کہا کہ امریکا اب ’یرغمالیوں کی واپسی اور غزہ کے عوام کے لیے زیادہ مستحکم ماحول پیدا کرنے کے لیے متبادل آپشنز پر غور کرے گا۔‘ تاہم انہوں نے ان متبادل آپشنز کی وضاحت نہیں کی۔
حماس نے وٹکوف کے بیان کو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے فائدے کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوشش قرار دیا ہے اور کہا کہ حالیہ دنوں میں مذاکرات میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔
باسم نعیم کے مطابق مذاکرات میں کئی اختلافات تقریباً حل ہو چکے ہیں، جن میں جنگ بندی کے ایجنڈے، مستقل معاہدے تک بات چیت جاری رکھنے کی ضمانت اور انسانی امداد کی ترسیل کا طریقہ شامل ہے۔
جمعرات کو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے دفتر نے بھی حماس کے ردعمل کے بعد اپنا مذاکراتی وفد واپس بلا لیا تھا۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے لیے امریکی صدر ٹرمپ کی حکومت کو ابھی تک کوئی کامیابی نہیں ملی، جبکہ غزہ میں حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔غزہ میں بھوک اور انسانی بحران کی وجہ سے اسرائیل پر دنیا بھر سے دباؤ بڑھ رہا ہے۔
حال ہی میں مغربی حمایت یافتہ 24 سے زائد ملکوں اور 100 سے زیادہ فلاحی تنظیموں نے جنگ ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور اسرائیل کی پابندیوں اور امداد کی تقسیم کے نئے طریقے پر تنقید کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ غزہ میں ان کے اپنے امدادی کارکن بھی بھوک کا سامنا کر رہے ہیں۔