
اقوامِ متحدہ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ طالبان نے پاکستان اور ایران سے واپس آنے والے پناہ گزینوں کو ان کی شناخت یا ذاتی پسِ منظر کی بنیاد پر دھمکیاں دی ہیں اور تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ طالبان نے اس الزام کو مسترد کر دیا ہے۔
اقوامِ متحدہ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ طالبان نے پاکستان اور ایران سے واپس آنے والے پناہ گزینوں کو ان کی شناخت یا ذاتی پسِ منظر کی بنیاد پر دھمکیاں دی ہیں اور تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ طالبان نے اس الزام کو مسترد کر دیا ہے۔
پاکستان اور ایران نے غیر قانونی طور پر مقیم لاکھوں افغان مہاجرین کو ان کے وطن واپس بھیجا ہے۔ افغان حکام بھی اپنے شہریوں پر زور دیتے رہے ہیں کہ جو لوگ 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان چھوڑ گئے تھے، وہ واپس لوٹ آئیں اور انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔
مگر انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے بارہا خبردار کیا گیا ہے کہ جو لوگ واپس آئے ہیں ان میں سے اکثر کو ان کی جنس، سابق افغان حکومت سے تعلق یا ان کے پیشے کی وجہ سے تشدد یا انتقامی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تاہم جمعرات کو اقوامِ متحدہ کے افغانستان میں مشن نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ واپس آنے والے کچھ لوگوں کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے جب کہ بعض لوگ طالبان کے ڈر سے یا تو چھپ گئے ہیں یا دوسرے مقامات پر منتقل ہو گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ان افراد کو تشدد، غیر مناسب سلوک نہ کرنے، من مانی گرفتاریوں اور طالبان کی جانب سے دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ایک سابق افغان سرکاری افسر نے اقوامِ متحدہ کے مشن کو بتایا کہ جب وہ 2023 میں افغانستان واپس آیا تو اسے حراست میں لے کر ڈنڈوں اور تاروں سے مارا پیٹا گیا۔ اسے سزائے موت کی بھی دھمکیاں دی گئیں۔
ایک نان بائنری پرسن کا کہنا تھا کہ اس پر بھی شدید تشدد کیا گیا اور بندوق کے دستے سے اسے مارا گیا۔
اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق ولکر ترک کہتے ہیں کہ کسی بھی شخص کو واپس ایسے ملک نہیں بھیجنا چاہیے جہاں اسے اپنی شناخت یا ذاتی پسِ منظر کی بنیاد پر ظلم و ستم کا سامنا ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغان خواتین اور لڑکیوں کے لیے اور بھی زیادہ خطرہ ہے۔ ان کے بقول انہیں صرف ان کی جنس کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ طالبان نے افغان خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم، ملازمت اور عوامی مقامات پر جانے پر متعدد پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جس کی وجہ سے مغربی ممالک کی جانب سے طالبان پر سخت تنقید ہوتی ہے۔
طالبان نے اقوامِ متحدہ کی اس رپورٹ پر ردعمل دیتے ہوئے اس میں لگائے گئے الزامات کو مسترد کیا ہے۔
طالبان حکومت کی وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ پڑوسی ملکوں سے آنے والے افغانوں کو دستاویزات، ٹرانسپورٹ، قانونی مدد اور ری لوکیشن میں مدد جیسی تمام سہولتیں مہیا کی جا رہی ہیں اور ان کا پرجوش استقبال کیا جا رہا ہے۔
طالبان نے اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ افغان مہاجرین کی زبردستی ملک بدری کو روکے اور مہاجرین کو خوراک، دوائیں، تعلیم اور تحفظ فراہم کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار نہ ہو۔