
دونوں ممالک کے درمیان صورتحال کشیدگی کو مزید بڑھا رہی ہے اور خطے میں امن و سلامتی کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ عالمی برادری دونوں ممالک سے تحمل اور مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی اپیل کر رہی ہے۔
تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان ایک دہائی بعد بدترین سرحدی جھڑپوں دوبارہ شروع ہوچکی ہیں۔ ان جھڑپوں میں اب تک کم از کم 16 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ ہزاروں لوگ محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔
تھائی لینڈ کے وزیراعظم نے کہا ہے کہ سرحدی کشیدگی جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔
یہ واقعہ کیسے شروع ہوا؟
جمعرات کی صبح دونوں ممالک کے درمیان اُس متنازعہ علاقے میں جھڑپیں شروع ہوئیں جو ایک قدیم مندر کے قریب واقع ہے۔ یہ جھڑپیں جلد ہی سرحد کے دیگر علاقوں تک پھیل گئیں اور مسلسل دوسرے دن بھی شدید گولہ باری جاری رہی۔
موجودہ صورتحال کیا ہے؟
- جھڑپیں اب بھی جاری ہیں اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر فائرنگ شروع کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
- ان جھڑپوں میں اب تک 15 عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر تھائی لینڈ کے ہیں۔
- تھائی لینڈ نے کمبوڈیا کے دارالحکومت نوم پنھ میں اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے اور کمبوڈیا کے سفیر کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔
- یہ اقدام اُس وقت اٹھایا گیا جب تھائی لینڈ کا ایک فوجی بارودی سرنگ کے دھماکے میں زخمی ہو گیا۔ تھائی لینڈ کا کہنا ہے کہ یہ بارودی سرنگ کمبوڈیا کی فوج نے وہاں حال ہی میں رکھی تھی۔
- کمبوڈیا نے اس الزام کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔
یہ صورتحال دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو مزید بڑھا رہی ہے اور خطے میں امن و سلامتی کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ عالمی برادری دونوں ممالک سے تحمل اور مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی اپیل کر رہی ہے۔
کمبوڈیا نے ٹرک پر نصب راکٹ لانچرز تعینات کیے ہیں، جن کے بارے میں تھائی لینڈ کا کہنا ہے کہ ان کا استعمال شہری علاقوں کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔ دوسری جانب تھائی افواج نے امریکہ کے تیار کردہ ایف-16 جنگی طیارے سرحدی علاقوں میں بھیجے، جن میں سے ایک نے کمبوڈیا کی حدود میں فوجی اہداف پر بمباری کی۔
مقامی حکام کے مطابق جھڑپوں کے باعث تھائی لینڈ میں تقریباً ایک لاکھ 30 ہزار افراد کو سرحدی علاقوں سے محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے، جبکہ کمبوڈیا میں تقریباً 12 ہزار خاندانوں کو لڑائی کے قریب علاقوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔
تنازعہ کہاں سے شروع ہوا؟
تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان سرحد 817 کلومیٹر لمبی ہے، لیکن اس سرحد کے کئی حصوں پر لائن واضح نہیں کہ اصل میں کس ملک کی حدود کہاں تک ہیں۔ اسی لیے دونوں ملک پچھلے 100 سال سے زیادہ عرصے سے ان علاقوں کو اپنا علاقہ سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے سے اختلاف کرتے آ رہے ہیں۔
1907 میں جب کمبوڈیا فرانس کی کالونی تھا، تو فرانس نے تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان سرحد کا ایک نقشہ بنایا۔
یہ نقشہ ایک معاہدے کی بنیاد پر بنایا گیا تھا، جس کے مطابق سرحد وہاں بنائی جائے گی جہاں قدرتی طور پر پانی پہاڑوں یا زمین سے بہہ کر ایک طرف جاتا ہے۔ یعنی وہ قدرتی لکیر جو دونوں ملکوں کے درمیان پانی کے بہاؤ سے بنتی ہے، اسے سرحد مانا جائے گا۔
تاہم بعد میں تھائی لینڈ نے اس نقشے کو چیلنج کر دیا۔
سال 2000 میں دونوں ممالک نے ایک جوائنٹ بارڈر کمیشن بنانے پر اتفاق کیا تاکہ باہمی دعوؤں کو پرامن طریقے سے حل کیا جا سکے، مگر اب تک اس حوالے سے خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔
تاریخی مقامات کی ملکیت کے دعووں نے دونوں ممالک کے درمیان قوم پرستی پر مبنی کشیدگی کو بڑھا دیا ہے۔ خاص طور پر 2003 میں اس وقت حالات شدید کشیدہ ہو گئے تھے جب ایک تھائی مشہور شخصیت کی طرف سے مبینہ طور پر کمبوڈیا کے عالمی ورثے میں شامل ’انگکور واٹ‘ نامی مندر پر ملکیت سے متعلق بیان سامنے آیا۔
اس بیان کے بعد کمبوڈیا کے دارالحکومت نوم پنھ میں مشتعل ہجوم نے تھائی سفارتخانے اور تھائی کاروباری اداروں کو نذرِ آتش کر دیا تھا۔
ماضی میں کشیدگی کے بڑے واقعات کون سے تھے؟
ایک 11ویں صدی کا ہندو مندر، جسے کمبوڈیا میں ’پریاہ ویہیئر‘ اور تھائی لینڈ میں ’کھاؤ پھرا ویہان‘ کہا جاتا ہے، کئی دہائیوں سے دونوں ممالک کے درمیان تنازعے کا مرکزی نقطہ رہا ہے۔ بنکاک اور نوم پنھ دونوں اس مندر پر تاریخی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔
1962 میں عالمی عدالتِ انصاف نے فیصلہ دیا کہ یہ مندر کمبوڈیا کا حصہ ہے، لیکن تھائی لینڈ نے مندر کے اردگرد کی زمین پر دعویٰ برقرار رکھا۔
2008 میں کمبوڈیا نے اس مندر کو یونیسکو ورلڈ ہیریٹیج (یونیسکوعالمی ورثہ) میں شامل کرانے کی کوشش کی، جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی اور اگلے چند سالوں میں وقفے وقفے سے جھڑپیں ہوتی رہیں، جن میں کم از کم 12 افراد ہلاک ہوئے۔
2013 میں کمبوڈیا نے عالمی عدالتِ انصاف سے 1962 کے فیصلے کی مزید وضاحت مانگی، جس پر عدالت نے ایک بار پھر کمبوڈیا کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ مندر کے آس پاس کی زمین بھی کمبوڈیا کا حصہ ہے اور تھائی فوج کو وہاں سے واپس بلانے کا حکم دیا۔
یہ تاریخی تنازعہ اب بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو کشیدہ رکھنے کا سبب بن رہا ہے۔
حالیہ کشیدگی کے پیچھے کیا ہے؟
اگرچہ تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان پرانے جھگڑے ضرور ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں دونوں ملکوں کی حکومتوں کے تعلقات اچھے رہے۔
اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ دونوں ملکوں کے سابق طاقتور رہنما (تھائی لینڈ کے تھاکسن شناوترا اور کمبوڈیا کے ہن سین) ایک دوسرے کے بہت قریبی دوست تھے، اور ان کی دوستی کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں نرمی رہی۔
تھائی لینڈ میں حالیہ دنوں میں قوم پرستی بڑھ گیا ہے، خاص طور پر جب کچھ قدامت پسند لوگوں نے حکومت کی اُس پالیسی پر اعتراض کیا، جس میں کمبوڈیا کے ساتھ سمندری علاقوں میں تیل یا گیس جیسے قدرتی وسائل تلاش کرنے کے لیے بات چیت کی جا رہی تھی۔
ان لوگوں کو خدشہ تھا کہ اگر ایسا ہوا تو تھائی لینڈ خلیجِ تھائی لینڈ میں موجود ایک اہم جزیرہ ’کو کُوڈ‘ شاید کمبوڈیا کو کھو بیٹھے گا۔
فروری میں کشیدگی اُس وقت مزید بڑھی جب کمبوڈیا کے کچھ شہری، جن کے ساتھ فوجی بھی تھے، ایک اور قدیم ہندو مندر ’تا موآن تھوم‘ پر پہنچے اور اپنا قومی ترانہ گایا۔ اس مندر پر بھی دونوں ممالک دعویٰ کرتے ہیں۔ تھائی فوج نے ترانہ گانے پر انہیں روک دیا، جس سے ماحول مزید کشیدہ ہوگئے۔
اس کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش تھائی وزیرِاعظم پائیتونگتارن شناوترا (تھاکسن کی بیٹی) نے گزشتہ ماہ کمبوڈین رہنما ہن سین سے فون پر گفتگو کے ذریعے کی لیکن یہ کوشش اُلٹی ثابت ہوئی، کیونکہ یہ گفتگو پہلے لیک ہوئی اور پھر ہن سین نے آڈیو ریکارڈنگ فیس بک پر پوسٹ کردی۔
فون کال میں خاتون وزیرِاعظم نہ صرف ایک تھائی آرمی کمانڈر پر تنقید کرتی سنائی دیں، بلکہ کمبوڈین رہنما کے سامنے کسی حد تک جھکاؤ کا تاثر بھی دیا، جس پر عوام میں شدید ردعمل سامنے آیا اور کچھ سینیٹرز نے عدالت میں شکایت درج کروائی۔ نتیجتاً 1 جولائی کو عدالت نے وزیرِاعظم کو عہدے سے معطل کر دیا۔
یہ سیاسی بحران اور عوامی غصہ، دونوں ممالک کے درمیان موجودہ کشیدگی کو مزید ہوا دے رہا ہے۔
کیا تنازع حل کرنے کی کوئی کوشش ہوئی ہے؟
28 مئی کو ہونے والی جھڑپ کے بعد دونوں ممالک نے فوری طور پر کشیدگی کم کرنے، مزید تصادم سے بچنے، اور بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں 14 جون کو دونوں ممالک کی مشترکہ بارڈر کمیشن کے اجلاس میں مذاکرات طے پائے۔
دونوں ممالک نے سفارتی انداز میں بیانات جاری کیے، جن میں امن کی یقین دہانی کرائی گئی، لیکن ساتھ ہی اپنی خودمختاری کا دفاع کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا گیا۔
تاہم زمینی حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک کی فوجیں اب بھی سرحد کے قریب تعینات ہیں۔
کمبوڈیا کا کہنا ہے کہ موجودہ مذاکراتی طریقے مؤثر نہیں رہے، اس لیے وہ چار سرحدی علاقوں سے متعلق تنازع عالمی عدالتِ انصاف میں لے جانا چاہتے ہیں تاکہ ان حساس مسائل کو قانونی طور پر حل کیا جا سکے۔
تھائی لینڈ نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں کو تسلیم نہیں کیا اور وہ چاہتا ہے کہ یہ تنازع صرف دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کے ذریعے حل ہو۔
حالیہ جھڑپوں کے بعد کمبوڈیا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو خط لکھا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ کونسل فوری اجلاس بلائے تاکہ تھائی لینڈ کی جانب سے کی جانے والی مبینہ ’بلا جواز اور منصوبہ بندی کے تحت فوجی جارحیت‘ کو روکا جا سکے۔
دوسری جانب تھائی لینڈ کا مؤقف ہے کہ مسئلہ دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہونا چاہیے، لیکن بات چیت تب ہی ممکن ہو گی جب کمبوڈیا پہلے پرتشدد کارروائیاں بند کرے۔