اسرائیل اور امریکہ قطر میں ہونے والے غزہ جنگ بندی کے مذاکرات سے پیچھے ہٹ گئے

09:3325/07/2025, جمعہ
جنرل25/07/2025, جمعہ
AFP
امریکہ کے بعد اسرائیل نے بھی اپنی مذاکراتی ٹیم واپس بلالی ہے، جس سے قطر میں جاری بات چیت مؤخر ہو گئی ہے۔
تصویر : اے ایف پی / فائل
امریکہ کے بعد اسرائیل نے بھی اپنی مذاکراتی ٹیم واپس بلالی ہے، جس سے قطر میں جاری بات چیت مؤخر ہو گئی ہے۔

اسرائیل اور امریکہ کے مذاکرات کاروں نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں غزہ میں جنگ بندی کے مذاکرات سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔

امریکی نشریاتی اداروں کی رپورٹس کے مطابق امریکہ نے غزہ میں جنگ بندی سے متعلق قطر میں جاری مذاکرات سے اپنی مذاکراتی ٹیم واپس بلا لی ہے۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی سفیر اسٹیو وٹکوف نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ حماس جنگ بندی میں سنجیدہ نہیں ہے۔

ان کے مطابق حماس کا رویہ ایسا ہے جیسے وہ امن کا معاہدہ کرنا ہی نہیں چاہتی، اسی لیے امریکہ نے مزید بات چیت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اسٹیو وٹکوف نے جمعرات کو کہا کہ ’اگرچہ ثالثوں (جیسے قطر اور مصر) نے جنگ بندی کے لیے بھرپور کوشش کی، لیکن حماس نہ تو سنجیدہ لگ رہی ہے اور نہ ہی ایمانداری سے مذاکرات کر رہی ہے۔ اس لیے اب امریکہ دوسرے طریقے سوچے گا جن سے یرغمالیوں کو واپس لایا جا سکے اور غزہ میں لوگوں کے لیے حالات بہتر بنائے جا سکیں‘۔

اس اعلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے ہونے والی سفارتی کوششوں کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ غزہ پچھلے 21 مہینوں سے تباہی، بمباری اور محاصرے کا شکار ہے اور امن کی امیدیں کمزور پڑ گئی ہیں۔

امریکہ کے بعد اسرائیل نے بھی اپنی مذاکراتی ٹیم واپس بلالی ہے، جس سے قطر میں جاری بات چیت مؤخر ہو گئی ہے۔ ان مذاکرات میں پہلے ہی بہت کم پیش رفت ہورہی تھی۔

فی الحال یہ بھی نہیں معلوم ہوسکا کہ امریکہ اب یرغمالیوں کی رہائی اور امن کے لیے کون سے دوسرے راستے آزمانے جا رہا ہے۔


اسرائیل کا موٴقف

اسرائیلی اخبار ہارٹز کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی ذرائع نے کہا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کی مذاکراتی ٹیموں کو واپس بلانا ایک مشترکہ حکمتِ عملی کا حصہ ہے تاکہ حماس پر دباؤ ڈالا جا سکے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے ابھی تک عوامی طور پر اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے کہ اسرائیلی مذاکرات کار دوحہ سے کیوں واپس جا رہے ہیں۔‘

تاہم سینئر اسرائیلی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس بات پر زور دیا کہ مذاکرات میں کوئی خلل نہیں پڑا۔


حماس کا موٴقف

ادھر حماس نے اسٹیو وٹکوف کے بیان پر حیرت کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ حماس کا مؤقف ثالثوں کو قابل قبول لگا تھا اور اس سے ایک مکمل معاہدے کی راہ ہموار ہوئی تھی۔

حماس نے جمعے کی صبح ایک بیان میں کہا کہ ’حماس اس بات پر زور دیتا ہے کہ وہ مذاکرات جاری رکھنے اور ان میں سنجیدگی سے شامل ہونے کی خواہش رکھتا ہے، تاکہ رکاوٹیں دور کی جا سکیں اور ایک مستقل جنگ بندی معاہدے تک پہنچا جا سکے۔‘

یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ شدید انسانی بحران کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق حالیہ ہفتوں میں اسرائیلی فورسز نے ایک ہزار سے زائد ایسے فلسطینیوں کو قتل کیا ہے جو بھوک سے مجبور ہو کر خوراک لینے نکلے تھے۔ صرف اتوار کے دن کم از کم 85 فلسطینی مارے گئے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بدھ کے روز صورتِ حال کو ’انسانی پیدا کردہ اجتماعی بھوک‘ قرار دیا ہے، جس کی وجہ امدادی سامان کی فراہمی پر عائد پابندیاں ہیں۔

اسٹیو وٹکوف نے کہا کہ ’یہ افسوسناک ہے کہ حماس نے اتنی خودغرضی سے کام لیا‘، لیکن ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا کہ امریکہ ’غزہ پر بمباری کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے‘۔ اگرچہ امریکی حکام اکثر مذاکرات کی ناکامی کا الزام فلسطینیوں پر ڈالتے رہے ہیں۔


جنگ بندی میں کیا شامل ہے؟

تجویز کردہ معاہدے کے تحت 60 دن کی جنگ بندی ہونی تھی۔ اس دوران حماس 10 زندہ یرغمالیوں کو رہا کرتی اور 18 دیگر کے جسد خاکی مرحلہ وار حوالے کیے جانے تھے۔ بدلے میں اسرائیل فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا، غزہ میں امداد میں اضافہ کرنا اور دونوں فریق مستقل جنگ بندی کے لیے مذاکرات میں شامل ہونا تھا۔


جنگ بندی مذاکرات میں کیا رکاوٹ تھی؟

مذاکرات اس نکتے پر آ کر رُک گئے تھے کہ جنگ بندی کے بعد اسرائیلی فوج کہاں تعینات ہوگی خاص طور پر یہ کہ آیا اسرائیل نیٹزاریم اور فلاڈلفی کاریڈورز پر اپنا کنٹرول برقرار رکھے گا یا نہیں۔ یہ معاملہ اب تک سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے، جس پر کوئی سمجھوتا ممکن نظر نہیں آ رہا۔

اس کے علاوہ اسرائیل کا مطالبہ ہے کہ جب تک حماس حکومت سے الگ نہ ہوجائے اور ہتھیار نہیں ڈالتی، جنگ ختم نہیں کی جائے گی۔

دوسری جانب حماس نے مشروط طور پر حکومت سے الگ ہونے پر بات چیت کی خواہش ظاہر کی ہے۔

ہارٹز کی رپورٹ کے مطابق دیگر اختلافات میں یہ بھی شامل ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کے دوران کن علاقوں سے اپنی فوج واپس بلائے گا اور وہ فلسطینی قیدی کون ہوں گے جنہیں رہا کیا جائے گا۔

حالیہ دنوں میں ٹرمپ حکومت کو اُمید تھی کہ وہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاملے میں کوئی کامیابی حاصل کر لے گی۔ انہوں نے اپنی الیکشن مہم میں بھی وعدہ کیا تھا کہ وہ دنیا میں جاری جنگوں کو ختم کریں گے۔

لیکن جمعرات کو جو صورتحال سامنے آئی (جیسے مذاکرات کا رک جانا اور ٹیموں کا واپس بلایا جانا) وہ ٹرمپ کی اس امید کے خلاف ہے۔

واضح رہے کہ آخری عارضی جنگ بندی کا معاہدہ جنوری میں ہوا تھا، لیکن مارچ میں اسرائیل کی اچانک فضائی کارروائیوں کے بعد وہ معاہدہ ٹوٹ گیا، جن میں 400 سے زائد افراد مارے گئے تھے۔





#اسرائیل حماس جنگ
#مشرق وسطیٰ
#امریکا