
بنگلہ دیش نے 15 سال بعد پاکستان کے ساتھ ہونے والے پہلے سیکریٹری خارجہ سطح کے مذاکرات میں 1971 کے مظالم پر پاکستان سے عوامی معافی کا مطالبہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ پچھلے دن پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے پاکستان کی سیکریٹری خارجہ آمنہ بلوچ کی قیادت میں ایک وفد ڈھاکہ پہنچا تھا۔ یہ ملاقات ’فارن آفس کنسلٹیشن‘ (ایف او سی) کے تحت ہو رہی ہے، جس میں دونوں ممالک کے درمیان تمام مسائل پر بات چیت کی گئی۔
یہ ملاقات تقریباً 15 سال بعد دونوں ممالک کے خارجہ سیکریٹریز کے درمیان ہوئی اور اس سے دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے میں مدد ملنے کی توقع ہے۔

بنگلہ دیش کے مطالبات:
اس ملاقات میں بنگلہ دیش نے پاکستان سے 1971 کے مظالم پر عوامی معافی کا مطالبہ کیا ہے اور 1971 میں الگ ہونے کے بعد واجبات کی مد میں 4.3 ارب امریکی ڈالر کی ادائیگی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
بنگلہ دیش کے سیکریٹری خارجہ ایم جشیم الدین نے ملاقات کے بعد کہا کہ ’ہم نے پاکستان کے ساتھ تاریخی طور پر حل نہ ہونے والے معاملات اٹھائے ہیں۔‘
ڈھاکا نے اس ملاقات میں کچھ اور مسائل بھی اٹھائے، جن میں 3 لاکھ سے زائد پاکستانیوں کی واپسی کا معاملہ شامل تھا، جو امدادی کیمپوں میں مقیم ہیں۔ اس کے علاوہ 1970 کے بھولا سائیکلون نامی طوفان کے متاثرین کے لیے آنے والی غیر ملکی امداد کی ٹرانسفر کا معاملہ اٹھایا گیا۔
یاد رہے کہ جب 25 اور 26 مارچ 1971 کی رات پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں ’آپریشن سرچ لائٹ‘ شروع کیا تھا، یہ جنگ نو ماہ تک چلی اور آخرکار بنگلہ دیش کی آزادی پر ختم ہوئی۔
پھر 3 دسمبر کو انڈیا بھی اس جنگ میں شامل ہو گیا۔ بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان کے کئی شہروں کی طرف پیش قدمی کی اور بھارتی فضائیہ نے ہوائی حملے شروع کیے۔ انڈیا نے بنگلہ دیش کے علیحدگی پسندوں کی مدد کی، جس سے پاکستان کو بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔
بنگلہ دیش کا دعویٰ ہے کہ اس جنگ میں بچوں سمیت لاکھوں لوگ ہلاک ہوئے اور خواتین کو ریپ کا نشانہ بنایا گیا تاہم پاکستان نے الزامات کی تردید کی ہے۔
بنگلہ دیش کے وزیراعظم کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ محمد یونس نے پاکستانی سیکریٹری خارجہ آمنہ بلوچ کے ساتھ علیحدہ ملاقات کی اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے پر زور دیا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعاون بڑھایا جا سکے اور تجارت و کاروبار کے امکانات تلاش کیے جا سکیں۔
محمد یونس نے آمنہ بلوچ سے کہا کہ ’چند رکاوٹیں ہیں۔ ہمیں انہیں حل کرنے کے طریقے تلاش کرنے ہوں گے تاکہ ہم آگے بڑھ سکیں۔‘
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان خارجہ سطح پر ایسی ملاقات 2012 میں ہوئی تھی جب اُس وقت کے وزیرخارجہ حنا ربانی کھر نے ڈھاکہ کا دورہ کیا تھا۔

پاکستان نے کیا کہا؟
پاکستان کی سیکریٹری خارجہ آمنہ بلوچ نے کہا کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کو آپس میں اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ایسے طریقے تلاش کرنے ہوں گے جن سے دونوں ممالک اپنے مشترکہ مفادات (جیسے کہ تجارت، معیشت، ثقافت وغیرہ) کا فائدہ اٹھا سکیں۔
بعدازاں بی بی سی اردو کے مطابق پاکستان کی جانب سے ایک اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں بنگلہ دیش کی جانب سے مطالبات کا ذکر نہیں ہے۔
اعلامیے کے مطابق دونوں ممالک نے کہا کہ انہیں باقاعدہ بات چیت جاری رکھنی چاہیے اور موجودہ معاہدوں کو جلد مکمل کرنا چاہیے۔ تجارت، زراعت، تعلیم میں مزید تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان نے بنگلہ دیش کو زرعی یونیورسٹیوں میں تعلیمی مواقع دینے کی پیشکش کی جبکہ بنگلہ دیش نے ماہی گیری اور میری ٹائم سٹڈیز میں تکنیکی تربیت فراہم کرنے کی پیشکش کی۔
اس کےعلاوہ دونوں ممالک نے کراچی اور چٹاگانگ کے درمیان براہ راست شپنگ کے آغاز کا خیرمقدم کیا اور براہ راست فضائی روابط دوبارہ شروع کرنے پر زور دیا۔ بنگلہ دیش نے سفر اور ویزا کی سہولت کو آسان بنانے میں پیش رفت پر خوشی کا اظہار کیا۔