ایمان مزاری اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے درمیان تکرار، معاملہ کیا ہے؟

15:2612/09/2025, جمعہ
جنرل12/09/2025, جمعہ
ویب ڈیسک
 لاہور بار نے مطالبہ کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل اس معاملے کا نوٹس لے اور جسٹس ڈوگر کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جائے۔
تصویر : سوشل میڈیا / فائل
لاہور بار نے مطالبہ کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل اس معاملے کا نوٹس لے اور جسٹس ڈوگر کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جائے۔

وکلاء، سیاست دان اور سوشل میڈیا صارفین اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کی جانب سے ایڈووکیٹ ایمان مزاری سے کیے گئے ریمارکس کی مذمت کررہے ہیں۔

معاملہ کچھ یوں ہے کہ جمعرات کو جسٹس ڈوگر نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نام نکالنے کی درخواست کی سماعت کے دوران اعتراض اٹھایا کہ ایمان مزاری نے مبینہ طور پر انہیں ’ڈکٹیٹر‘ کہا ہے اور خبردار کیا کہ وہ ان کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کریں گے۔ یہ واضح نہیں تھا کہ جس موقع پر ایمان مزاری نے انہیں ڈکٹیٹر کہا، جج اس کا حوالہ دے رہے تھے۔

اس پر ایمان مزاری نے کہا کہ ’میں نے قانون اور آئین کے دائرہ کار سے باہر کچھ نہیں کہا۔ اگر آپ توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کرنا چاہتے ہیں تو ضرور کریں۔ آئین نے مجھے اظہارِ رائے کی آزادی دی ہے اور میں نے اسی حق کا استعمال کیا ہے۔‘

سماعت کے دوران جسٹس ڈوگر نے ایمان مزاری کے شوہر ہادی علی چھٹہ کی طرف رخ کر کے کہا کہ ’ہادی صاحب، اسے سمجھائیں، اگر کبھی میں نے انہیں پکڑ لیا تو۔۔۔۔‘

آج یعنی جمعہ کو جسٹس ڈوگر نے کہا کہ ان کے الفاظ کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایمان مزاری ان کے لیے ’بیٹی جیسی‘ ہیں اور وہ صرف انہیں سمجھا رہے تھے۔ ’چیف جسٹس اور بڑے ہونے کی حیثیت سے میں انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ میرے ریمارکس کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا اور ایک طوفان کھڑا کر دیا گیا۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے مؤقف اپنایا کہ ایمان مزاری کے ساتھ بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ وہ ان کے فیصلوں سے اختلاف کر سکتی ہیں لیکن انہیں تنقید کو ذاتی نوعیت دینے سے گریز کرنا چاہیے۔

ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ ’میں اسے اسی طرح سمجھا رہا تھا جیسے بچے کو سمجھاتے ہیں، لیکن وہ نہیں سمجھ رہی تھیں۔ وہ بار بار بنیادی حقوق کا ذکر کر رہی تھیں۔ کیا عدالت کے کوئی بنیادی حقوق نہیں؟‘


میں نے اُن کی بیٹی ہوں نہ بچی، میں پروفیشنل وکیل ہوں: ایمان مزاری

ایمان مزاری نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر جسٹس ڈوگر کے ریمارکس کو صنفی تعصب پر مبنی قرار دیتے ہوئے ان پر ہراسانی کا الزام لگایا۔ انہوں نے لکھا کہ ’پہلے چیف جسٹس نے عدالت میں میرے ساتھ بدتمیزی کی، مجھے ہراساں کیا اور کھلے عام دھمکیاں دیں۔۔ آج پھر وہ جنسی امتیازی ریمارکس دے رہے ہیں۔‘

انہوں نے دوٹوک کہا کہ ’میں نہ ان کی بیٹی ہوں اور نہ بچی۔ میں ایک پروفیشنل وکیل ہوں۔‘


جسٹس ڈوگر کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ

جسٹس ڈوگر کے ابتدائی ریمارکس اور پھر ان کی وضاحت نے سوشل میڈیا پر ہلچل مچا دی ہے۔

ایڈووکیٹ خدیجہ صدیقی نے کہا کہ جسٹس ڈوگر کے یہ الفاظ بالکل غلط اور ناقابلِ برداشت ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان سے عدالتوں میں پہلے سے موجود مردوں کی اجارہ داری اور عورتوں کے ساتھ امتیاز مزید بڑھتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایمان مزاری کے شوہر کو مخاطب کرنا دراصل عورت کو کمتر سمجھنے اور پدرشاہی رویے کو ظاہر کرتا ہے۔ ساتھ ہی ایمان کو توہینِ عدالت کی دھمکی دینا اس بات کی کوشش ہے کہ ایک وکیل کو اس کے حق سے روکا جائے، یعنی عدلیہ پر سوال نہ اٹھائے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے کہا کہ ’ایک عورت جو رواجوں کو توڑ کر نظام کو للکارتی ہے، وہ واقعی اس دھرتی کی بیٹی ہے۔ بڑے عہدوں پر چھوٹے لوگ اس حقیقت کو ختم نہیں کر سکتے۔‘ انہوں نے کہا کہ ایمان مزاری کی جدوجہد دیکھ کر انہیں محترمہ عاصمہ جہانگیر یاد آئیں، اور وہ آج ایمان پر فخر کرتیں۔

سابق سندھ ایم پی اے دیوان سچل نے کہا کہ ’کسی کو بھی کام کی جگہ پر اس طرح کی گفتگو کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، خاص طور پر کسی خاتون کے ساتھ۔‘

41 خواتین وکلاء کے ایک گروپ، جن میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی وکلاء بھی شامل ہیں، نے جسٹس ڈوگر کے ریمارکس کی مذمت میں ایک اعلامیہ جاری کیا۔ انہوں نے ان ریمارکس کو ’صنفی تعصب پر مبنی، دھمکی آمیز اور جج کے شایانِ شان نہ ہونے والا رویہ‘ قرار دیا۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ ’عدالتیں وہ جگہ نہیں ہوتیں جہاں جج اپنی ذاتی رنجشیں ظاہر کریں؛ جج کا کام انصاف فراہم کرنا ہے۔ جج کی ذمہ داری ہے کہ وہ آزاد اور غیر جانبدار رہیں۔ یہ ریمارکس پدرشاہی رویے کی عکاسی کرتے ہیں۔ توہینِ عدالت کے قوانین کا مقصد انصاف کی بالادستی ہے، نہ کہ وکلاء کے سروں پر تلوار لٹکانا۔‘

لاہور بار نے مطالبہ کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل اس معاملے کا نوٹس لے اور جسٹس ڈوگر کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جائے۔







#پاکستان
#ایمان مزاری
#توہین عدالت