اسرائیلی سپریم کورٹ نے اپنی حکومت کو فلسطینی قیدیوں کو بھوکا رکھنے کا ذمے دار قرار دے دیا
14:108/09/2025, پیر
ویب ڈیسک
اگلی خبر
فلسطینی قیدیوں کے اہلِ خانہ رام اللہ کے علاقے میں مظاہرہ کر رہے ہیں۔
اسرائیلی سپریم کورٹ نے اتوار کو فیصلہ دیا ہے کہ قیدیوں کو پیٹ بھرنے کے لیے جو کم سے کم خوراک چاہیے ہوتی ہے، اسرائیلی حکومت فلسطینی قیدیوں کو وہ بھی فراہم نہیں کر رہی۔
اسرائیلی سپریم کورٹ نے ایک غیر معمولی فیصلہ دیا ہے جس میں اسرائیلی حکومت کو فلسطینی قیدیوں کے حقوق سلب کرنے کا ذمے دار قرار دیا گیا ہے۔
اسرائیلی سپریم کورٹ نے اتوار کو فیصلہ دیا ہے کہ قیدیوں کو پیٹ بھرنے کے لیے جو کم سے کم خوراک چاہیے ہوتی ہے، اسرائیلی حکومت فلسطینی قیدیوں کو وہ بھی فراہم نہیں کر رہی۔ عدالت نے حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ فلسطینی قیدیوں کی خوراک کی مقدار بڑھائے اور معیار بہتر کرے۔
یہ ایک انتہائی غیر معمولی فیصلہ ہے کیوں کہ 23 ماہ سے جاری اسرائیل حماس جنگ کے دوران سپریم کورٹ نے حکومتی اقدامات پر شاذ و نادر ہی کوئی سوال اٹھایا ہے۔
غزہ میں حملوں اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی اقدامات پر دنیا بھر میں تنقید کی جا رہی ہے۔ لیکن اسرائیل نے اس تنقید کو مسترد کرتے ہوئے یہ مؤقف اپنایا ہے کہ حماس کو شکست دینے کے لیے یہ اقدامات ضروری ہیں۔
بہت سے فلسطینی قیدیوں کو صرف شک کی بنیاد پر کئی مہینے قید رکھنے کے بعد رہا کیا گیا۔
اسرائیلی فوج نے غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے سے فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد کو عسکریت پسندوں سے رابطوں کے شبہے میں گرفتار کیا ہے۔ ہزاروں فلسطینیوں کو مہینوں قید رکھنے کے بعد بغیر کسی الزام کے رہا کیا گیا اور ان قیدیوں نے حراستی مراکز اور جیلوں کے حالات بتائے ہیں۔
ان قیدیوں نے بتایا کہ جن جیلوں اور حراستی مراکز میں انہیں رکھا گیا تھا وہاں بہت ہی برے حالات ہیں۔ کم جگہ پر زیادہ لوگوں کو قید کرنا، خوراک کی کمی اور ناکافی طبی سہولتیں ہیں جس کی وجہ سے وہاں قید فلسطینیوں میں بیماریاں پھیل رہی ہیں۔
اسرائیل کی سپریم کورٹ میں کچھ لوگوں نے افرادی حیثیت میں اور کچھ تنظیموں نے حکومتی اقدامات کے خلاف درخواستیں دائر کی تھیں جس کی عدالت نے سماعت کی۔ ان درخواستوں میں غزہ میں خوراک اور طبی امداد کی کمی کی بھی شکایت کی گئی تھی۔ دو اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیموں نے یہ شکایت کی تھی کہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی ایک ’منظم پالیسی‘ کے تحت فلسطینی قیدیوں کو خوراک سے محروم کیا جا رہا ہے۔
اس درخواست کی سماعت کرتے ہوئے تین ججز پر مشتمل پینل نے متفقہ طور پر فیصلہ دیا کہ اسرائیلی حکومت کی قانونی ذمے داری ہے کہ وہ فلسطینی قیدیوں کو دن میں تین وقت کا کھانا مہیا کرے تاکہ ان کی خوراک کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوں۔ عدالت نے حکم دیا کہ حکومت اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔
ایک غیر متوقع دو، ایک کے فیصلے میں عدالت نے یہ بھی تسلیم کیا کہ گزشتہ سال اسرائیلی تنظیم ’ایسوسی ایشن فار سول رائٹس ان اسرائیل‘ اور انسانی حقوق کی تنظیم ’گیشا‘ کی جانب سے دائر کردہ درخواست درست تھی۔ جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ اسرائیل حماس جنگ کے دوران اسرائیلی حکومت نے جان بوجھ کر جیلوں میں قیدیوں کے کھانے پر پابندیاں لگائیں اور فلسطینی قیدیوں کو غذائی قلت اور بھوک کا شکار کیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’ہم آرام دہ یا لگژری طریقے سے رہائش کی بات نہیں کر رہے بلکہ ان بنیادی سہولتوں کی بات کر رہے ہیں جو قانون کے مطابق زندہ رہنے کے لیے ضروری ہیں۔ ہمیں وہ نہیں کرنا چاہیے جو ہمارا دشمن کر رہا ہے۔‘
فلسطینی اتھارٹی کے مطابق غزہ جنگ کے دوران اسرائیل کی حراست میں کم از کم 61 فلسطینی قیدی ہلاک ہو چکے ہیں۔ مارچ میں ایک 17 سالہ فلسطینی لڑکے کی اسرائیلی جیل میں موت ہو گئی تھی۔ ڈاکٹرز نے کہا تھا کہ یہ ممکنہ طور پر بھوک کی وجہ سے ہوئی ہے۔
اسرائیلی قومی سلامتی کے وزیر ایتامار بین گویر، جو جیلوں کا نظام بھی دیکھتے ہیں، انہوں نے گزشتہ سال فخریہ طور پر کہا تھا کہ انہوں نے قیدیوں کے حالاتِ زندگی کو اس کم سے کم حد تک گرا دیا ہے جو اسرائیلی قانون کے مطابق ضروری ہے۔
بین گویر نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر سخت تنقید کی ہے۔ انہوں نے ججز پر سوال اٹھایا کہ کیا وہ اسرائیل سے ہی ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں اسرائیلی یرغمالوں کی مدد کے لیے کوئی نہیں مگر اسرائیل کی سپریم کورٹ حماس کا دفاع کر رہی ہے جو ’ہمارے لیے شرمندگی کی بات ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ قیدیوں کو قانون میں درج کم سے کم سہولتیں فراہم کرنے کی پالیسی جوں کی توں جاری رہے گی۔
دوسری جانب ’ایسوسی ایشن فار سول رائٹس ان اسرائیل‘ نے فیصلے پر فوری عمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اسرائیل کی جیلوں کو تشدد کیمپس میں بدل دیا گیا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ ریاست کو لوگوں کو بھوکا نہیں رکھنا چاہیے چاہے انہوں نے جو بھی کیا ہو۔