نیپال میں سوشل میڈیا بند کرنے پر ہنگامے: وزیرِ اعظم مستعفی، صدر سمیت کئی سیاسی قائدین کے گھر نذرِ آتش

12:379/09/2025, منگل
جنرل9/09/2025, منگل
ویب ڈیسک
احتجاج کا ایک منظر
احتجاج کا ایک منظر

پیر کو پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور پولیس نے فائر کھول دیا جس سے 19 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔ اس کے بعد احتجاج پرتشدد شکل اختیار کر گیا۔

نیپال میں سوشل میڈیا بند کرنے کے خلاف ہنگاموں اور 19 افراد کی ہلاکت کے بعد وزیرِ اعظم نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے اور سوشل میڈیا پر عائد پابندی بھی ختم کر دی گئی ہے۔

نیپال میں پیر سوشل میڈیا بند کرنے کے خلاف ہنگامے پھوٹ پڑے۔ مظاہرین نے پارلیمنٹ پر حملہ کر دیا اور کئی سیاسی قائدین کے گھروں کو بھی آگ لگا دی۔ حکومت مخالف مظاہروں اور ہنگامہ آرائی کے بعد نیپال کی حکومت نے سوشل میڈیا پر عائد پابندی ہٹانے کا اعلان کر دیا ہے جب کہ نیپال کے وزیرِ اعظم اور وزیرِ داخلہ مستعفی ہو گئے ہیں۔

وزیرِ اعظم کے پی شرما اولی نے منگل کو صدر کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے کہا کہ میں آج سے ہی وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے استعفیٰ دے رہا ہوں۔ تاکہ موجودہ سیاسی صورتِ حال اور مسائل کو حل کرنے کے لیے آگے بڑھا جا سکے۔
نیپال کے وزیرِ اعظم کے پی اولی

دوسری جانب نیپال کے وزیرِ داخلہ نے پیر کی رات ہی کابینہ کی ایمرجنسی میٹنگ کے دوران استعفیٰ دے دیا تھا۔

احتجاج کیوں ہو رہا تھا اور صورتِ حال کیسے خراب ہوئی؟

نیپال کی حکومت نے پچھلے ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ فیس بک، ایکس اور یوٹیوب جیسے کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ملک میں بند کر رہی ہے کیوں کہ ان پلیٹ فارمز نے رجسٹریشن نہیں کرائی۔ حکومت نے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ریگولیٹ کرنے کے لیے نیپال میں رجسٹریشن کرانے کے احکامات دیے تھے جس کی ڈیڈ لائن گزر جانے کے بعد کئی بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بلاک کر دیا گیا۔

اس پابندی کے خلاف پیر کو نیپال بھر میں بڑی ریلیاں نکالی گئیں۔ دارالحکومت کٹھمنڈو میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور پارلیمنٹ کی عمارت کو گھیرے میں لے لیا۔ مظاہرین نعرے بازی کر رہے تھے کہ ’سوشل میڈیا نہیں، کرپشن بند کرو۔‘

اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور پولیس نے فائر کھول دیا جس سے 19 افراد ہلاک اور 340 سے زیادہ زخمی ہو گئے۔ نیپال کے ایک بڑے اسپتال نیشنل ٹراما سینٹر میں کئی زخمیوں کو لایا گیا ہے اور اسپتال کے ایک ڈاکٹر کے مطابق کئی زخمیوں کی حالت نازک ہے۔ ان کے بقول کئی لوگوں کو سر اور سینے میں گولیاں لگی ہیں۔

اس کے بعد احتجاج پرتشدد شکل اختیار کر گیا اور مظاہرین نے پارلیمنٹ کی عمارت پر بھی دھاوا بول دیا۔

سیاسی قائدین کے گھروں کو آگ لگا دی گئی

مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق مظاہرین نے دارالحکومت کٹھمنڈو اور اس کے مضافات میں اعلیٰ سیاسی قیادت کی رہائش گاہوں پر بھی حملے کیے اور انہیں آگ لگا دی۔ جن گھروں کو آگ لگائی گئی ان میں نیپال کے صدر رام چندرا پاؤڈل کا گھر بھی شامل ہے۔

اس کے علاوہ نیپال کی سب سے بڑی سیاسی جماعت نیپالی کانگریس کے رہنما شیر بہادر ڈیبوا، وزیرِ داخلہ رامیش لیکھک کے گھر اور وزیرِ خارجہ آرزو ڈیبوا کی ملکیت اسکول کو بھی آگ لگائی گئی ہے۔

اس احتجاج کو نیپال کے عوام میں بڑھتی ہوئی مایوسی اور سیاسی جماعتوں سے عدم اطمینان کے اظہار کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ کیوں کہ لوگ ان جماعتوں پر کرپشن کا الزام لگاتے ہیں۔ بعض حلقے اسے ’جین زی‘ یعنی نوجوانوں کا احتجاج بھی قرار دے رہے ہیں۔

مظاہرے منگل کو بھی جاری

ہنگامہ آرائی کو روکنے کے لیے نیپالی حکومت نے فوج کو طلب کر لیا اور دارالحکومت کٹھمنڈو اور دیگر شہروں میں غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو بھی نافذ کیا گیا ہے۔ مگر اس کے باوجود منگل کو بھی دارالحکومت میں کچھ مقامات پر مظاہروں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔

وزیرِ اعظم اولی نے استعفے سے قبل اپنے ایل بیان میں واقعے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنانے کا اعلان کیا تھا جو 15 دن میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ متاثرین کو زرِ تلافی بھی ادا کیا جائے گا۔

یہ پرتشدد واقعات اس وقت پیش آئے ہیں جب نیپال کی حکومت سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی ایک وسیع کوشش کر رہی ہے۔ جس کے تحت ایک بل پیش کیا گیا ہے تاکہ یہ پلیٹ فارمز ’درست طور پر منظم اور ذمے داری کے ساتھ کام کریں اور جواب دہ ہوں۔‘ مگر اس بل پر شدید تنقید کی جا رہی ہے اور اسے سینسرشپ کا ہتھیار اور آن لائن احتجاج کرنے والے حکومت مخالف لوگوں کو سزا دینے کا ذریعہ قرار دیا جا رہا ہے۔

حقوق کی تنظیمیں اسے بنیادی حقوق کے خلاف اور آزادی اظہارِ رائے کو سلب کرنے کی کوشش قرار دے رہی ہیں۔

##نیپال
##ہنگامہ آرائی
##احتجاج
##سوشل میڈیا