غزہ سے یورپ کا سفر جیٹ اسکی کے ذریعے، فلسطینی شہری ابو دَخا کے پرخطر سفر کی کہانی

13:0415/09/2025, پیر
ویب ڈیسک
فائل فوٹو
فائل فوٹو

ابو دخا کو غزہ سے یورپ پہنچنے میں ایک سال کا عرصہ لگا اور ہزاروں ڈالرز کا خرچ بھی آیا۔ لیکن ابو دَخا راستے کی ہر رکاوٹ کو توڑ کر اپنی منزل پر پہنچنے میں کامیاب رہے۔

ابو دَخا 31 سالہ فلسطینی شہری ہیں جو ایک پرخطر سفر کے بعد غزہ سے یورپ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ انہوں نے گہرے سمندر میں ایک طویل سفر جیٹ اسکی پر کیا تاکہ وہ کسی بھی طرح یورپ پہنچ جائیں۔

انہیں غزہ سے یورپ پہنچنے میں ایک سال کا عرصہ لگا اور ہزاروں ڈالرز کا خرچ بھی آیا۔ لیکن ابو دَخا راستے کی ہر رکاوٹ کو توڑ کر اپنی منزل پر پہنچنے میں کامیاب رہے۔ ابو دَخا کی یہ کہانی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ نے شائع کی ہے۔

ابو دخا نے اپریل 2024 میں پانچ ہزار ڈالرز دے کر غزہ اور مصر کا رفح بارڈر کراس کیا اور غزہ سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ وہاں سے وہ پہلے سیاسی پناہ کی امید لے کر چائنہ گئے لیکن انہیں اسائلم نہیں ملا تو وہ دوبارہ مصر آ گئے۔

اس کے بعد وہ لیبیا گئے اور وہاں سے یورپ جانے کی کوشش کرنے لگے۔ ابو دَخا نے اسمگلرز کے ساتھ یورپ پہنچنے کی 10 بار کوشش کی جو سب ناکام رہیں۔
ابو دخا کی برسلز کے اسٹیشن پر ایک تصویر جو انہوں نے رائٹرز کو خود مہیا کی۔

بالآخر انہوں نے ایک پرخطر راستہ چنا اور مزید 5000 ڈالرز خرچ کر کے لیبیا میں ایک جیٹ اِسکی خریدی۔ ساتھ میں 1500 ڈالرز حفاظتی سامان پر بھی خرچ کیے اور جی پی ایس، سیٹیلائٹ فون اور لائف جیکٹس وغیرہ خریدیں۔ چیٹ جی پی ٹی سے پوچھ کر فیول کا اندازہ لگایا اور سب سامان جیٹ اسکی کے پیچھے باندھ کر اپنا سفر شروع کیا۔

ابو دخا کے ساتھ اس سفر میں دو اور فلسطینی بھی تھے۔ 27 سالہ دیا اور 23 سالہ بسیم۔ ان تینوں ساتھیوں نے لیبیا کی الخمس بندرگاہ سے اپنا سفر شروع کیا اور اٹلی کے جزیرے لیمپی ڈیوسا کو اپنی پہلی منزل چنا۔
ان دو علاقوں کے درمیان 350 کلومیٹر کا سمندر ہے جسے عبور کرنے کے لیے ان تینوں نے 12 گھنٹے جیٹ اسکی پر گہرے سمندر کا سفر کیا۔ لیکن منزل پر پہنچنے سے 20 کلومیٹر پہلے ان کے پاس موجود فیول ختم ہو گیا جس کی وجہ سے انہیں مدد طلب کرنا پڑی۔ انہوں نے مدد کی درخواست کی جس کے بعد انہیں رومانیہ کی ایک گشت کرنے والی کشتی نے 18 اگست کو ریسکیو کر کے لیمپی ڈیوسا پہنچایا۔
وہ جیٹ اسکی جس پر ان تینوں نے سفر کیا۔

لیمپی ڈیوسا میں ان تینوں کو ایک حراستی مرکز میں رکھا گیا لیکن اس کے بعد بھی ان کا سفر جاری رہا۔ ان تینوں افراد کو اٹلی کے مین لینڈ کے علاقے سسلی لے جایا گیا اور وہاں سے جینووا پہنچایا گیا لیکن یہاں سے یہ تینوں فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

اٹلی کی وزارتِ داخلہ کے ترجمان کے مطابق انہیں نہیں معلوم کہ یہ تینوں اب کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔

ابو دَخا اور ان کے ساتھی کچھ گھنٹے جھاڑیوں میں چھپے رہے اور پھر فلائٹ کے ذریعے 23 اگست کو جینووا سے برسلز پہنچ گئے۔ برسلز سے انہوں نے ٹرین کے ذریعے جرمنی کا سفر کیا اور پہلے کولون اور پھر اوزنابرک نامی ایک علاقے میں پہنچے جہاں سے انہیں ان کے ایک رشتے دار نے پک کر لیا۔

ابو دَخا کے مطابق انہوں نے سیاسی پناہ کی درخواست دے دی ہے اور اب منتظر ہیں کہ کب عدالت ان کی درخواست کا جائزہ لیتی ہے۔ فی الحال ان کے پاس کوئی جاب بھی نہیں اور وہ اسائلم کے منتظر لوگوں کے لیے قائم ایک سینٹر میں رہ رہے ہیں۔
ابو دخا اپنے دیگر دو ساتھیوں کے ہمراہ

جرمنی کے مہاجرین اور پناہ گزینوں کے دفتر نے اس کیس پر کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔

ابو دخا کی فیملی اب بھی غزہ کے شہر خان یونس کے ایک کیمپ میں رہ رہی ہے۔ ان کا گھر تباہ ہو چکا ہے۔ ابو دخا کے والد نے رائٹرز سے گفتگو میں بتایا کہ ’اس کی انٹرنیٹ کی دکان تھی اور اس کا کام بہت اچھا چلتا تھا۔ اس نے بہت کچھ بنایا تھا لیکن سب ختم ہو گیا۔‘

ابو دَخا کو امید ہے کہ انہیں جرمنی میں رہنے کی اجازت مل جائے گی جس کے بعد وہ اپنی اہلیہ اور دو بچوں کو بھی اپنے پاس بلا سکیں گے۔ ان کا ایک بچہ بیمار ہے جسے علاج کی ضرورت ہے۔

ابو دَخا کے بقول ’میں نے جیٹ اسکی پر سفر کر کے اپنی جان انہی کے لیے خطرے میں ڈالی، کیوں کہ میری فیملی کے بغیر میری زندگی بے معنی ہے۔‘

(یہ تحریر رائٹرز سے لی گئی ہے)
##فلسطینی شہری
##غزہ
##یورپ