امریکہ میں ایک اور مریض کو خنزیر کا گردہ لگا دیا گیا، کیا یہ گردوں کے مریضوں کے لیے خوش خبری ہے؟

16:388/09/2025, پیر
ویب ڈیسک
فائل فوٹو
فائل فوٹو

ایف ڈی اے نے باضابطہ طور پر کمپنی ای جینیسس کو اجازت دے دی ہے کہ وہ 30 مریضوں پر کلینیکل ٹرائل کرے جن کی عمر 50 سال یا اس سے زیادہ ہے اور جو گردے کے منتظر ہیں۔

امریکہ میں ایک اور مریض کو خنزیر کا گردہ لگایا گیا ہے۔ یہ تجربہ ایسے وقت کیا گیا ہے جب سائنس دان اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں کہ جانوروں کے اعضا واقعی انسانی جان بچا سکتے ہیں یا نہیں۔

ڈاکٹروں نے پیر کو بتایا کہ نیو ہیمپشر کے 54 سالہ بل اسٹیورٹ نے 14 جون کو میساچوسٹس جنرل اسپتال میں یہ آپریشن کرایا تھا اور اب ان کی حالت بہتر ہے۔

بل اسٹیورٹ پیشے کے اعتبار سے ایتھلیٹک ٹرینر ہیں۔ انہوں نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو میں کہا کہ ’میں واقعی اس سائنس میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتا تھا۔‘
بل اسٹیورٹ اسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد واپس جا رہے ہیں۔

میساچوسٹس جنرل اسپتال میں پہلے بھی نیو ہیمپشر کے ایک مریض ٹم اینڈریوز کو خنزیر کا گردہ لگایا گیا تھا۔ وہ ریکارڈ سات ماہ سے اسی گردے پر زندہ ہیں اور بغیر ڈائلیسز کے زندگی گزار رہے ہیں۔

اس سے پہلے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ خنزیر کے گردے کا سب سے زیادہ عرصہ چلنے کا ریکارڈ 130 دن تھا جو ٹم اینڈریوز نے توڑ دیا ہے۔

امریکہ کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے نیوہیمپشر کے اس شخص اور کچھ دیگر تجربات کو دیکھتے ہوئے جینیاتی تبدیلیوں کے حامل خنزیر پیدا کرنے والی کمپنی ای جینیسس کو اجازت دی ہے کہ وہ گردوں کے اس طریقے کے ٹرانسپلانٹس پر تحقیق کرے۔

امریکہ میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ ٹرانسپلانٹ کے منتظر ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کو گردوں کی ہی ضرورت ہے۔ ہر سال ہزاروں مریض گردہ نہ ملنے کی وجہ سے جان سے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے سائنس دان خنزیروں کو جینیاتی طور پر اس طرح تبدیل کر رہے ہیں کہ ان کے اعضا زیادہ ’انسانی اعضا کے قریب تر‘ ہو جائیں تاکہ انسانی جسم کی قوتِ مدافعت (امیونٹی سسٹم) انہیں فوری طور پر رد نہ کر دے۔

اس طرح کے ٹرانسپلانٹ میں ابتدائی تجربات میں دو افراد کو دل اور دو افراد کو گردے لگائے گئے تھے لیکن وہ مریض زیادہ بیمار تھے اور اس ٹرانسپلانٹ کے بعد کم عرصہ ہی زندہ رہے۔ حال ہی میں چائنیز ریسرچرز نے بھی اعلان کیا کہ انہوں نے بھی زینوٹرانسپلانٹ (ایسا ٹرانسپلانٹ جس میں انسانی اعضا کے بجائے کسی جانور کے اعضا استعمال کیے جائیں) کیا ہے لیکن انہوں نے بہت کم معلومات جاری کیں۔

اس کے بعد الاباما کی ایک خاتون کو خنزیر کا گردہ لگایا گیا تھا جو 130 دن تک کام کرتا رہا لیکن پھر ان کے جسم نے اس گردے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے اسے نکالنا پڑا اور خاتون کو دوبارہ ڈائلیسز پر ڈال دیا گیا۔ ان تمام تجربات نے ریسرچرز کو اس بات پر قائل کیا ہے کہ اب زیادہ بیمار لوگوں کی نسبت کم بیمار افراد پر یہ تجربات کیے جائیں۔

اب جس مریض بل اسٹیورٹ کو گردہ لگایا گیا ہے، ان کے گردے ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے فیل ہوئے تھے اور اس کے علاوہ انہیں صحت کے کوئی مسائل نہیں تھے۔ اگر وہ انسانی گردے کے ٹرانسپلانٹ کے لیے انتظار کرتے تو انہیں سات سال انتظار کرنا پڑ سکتا تھا۔ لیکن دو سال ڈائلیسز پر رہنے کے بعد بل اسٹیورٹ نے زینوٹرانسپلانٹ کے بارے میں سنا اور اس تجربے میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں ہمیشہ سے سائنس میں دلچسپی لیتا رہا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ ان تجربات کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پہلے مریض اینڈریوز سے بھی مشورہ کیا اور پھر طے کر لیا کہ میں یہ ٹرانسپلانٹ کراؤں گا۔ برے سے برا یہی ہوگا کہ یہ گردہ بھی نکالنا پڑے گا۔

اب اسٹیورٹ ڈائلیسز سے نجات پا کر دوبارہ کام پر لوٹ آئے ہیں۔ وہ اپنے پرانے ڈائلیسز کلینک بھی گئے تاکہ وہاں مریضوں کو امید دلائیں کہ علاج کے نئے راستے موجود ہیں۔

کڈنی اسپیشلسٹ ڈاکٹر لیونارڈو ریئیلا کے مطابق ٹرانسپلانٹ کے بعد اسٹیورٹ کی دوا میں معمولی ردوبدل کرنا پڑا جیسا اینڈریوز کے کیس میں بھی ہوا تھا۔ لیکن ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ خنزیر کے گردے کتنے عرصے تک چل سکتے ہیں۔ لیکن اگر یہ ایک سال یا اس سے زیادہ عرصے کے لیے بھی مریضوں کو ڈائلیسز سے بچا لیں تو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ اس طرح یہ ان مریضوں کے لیے بہت کامیاب ثابت ہوں گے جنہیں کچھ عرصہ انتظار کے بعد انسانی گردہ ملنے کی امید ہو۔

اب ایف ڈی اے نے باضابطہ طور پر کمپنی ای جینیسس کو اجازت دے دی ہے کہ وہ 30 مریضوں پر کلینیکل ٹرائل کرے جن کی عمر 50 سال یا اس سے زیادہ ہے اور جو گردے کے منتظر ہیں۔ ایک اور کمپنی یونائیٹڈ تھیراپیوٹکس بھی جلد ہی ایسی ہی تحقیق شروع کرنے والی ہے۔

##امریکہ
##صحت
##گردے کا ٹرانسپلانٹ