
جہاں ہری بھری فصلیں کھڑی تھیں وہاں اب ریت ہی ریت ہے۔ پانی اترنے کے بعد کئی کئی فٹ ریت جمع ہو گئی ہے جس کی وجہ سے زمینیں ناقابلِ کاشت ہو گئی ہیں۔
پنجاب کے اکثر علاقوں میں سیلاب متاثرین پانی اترنے کے بعد اپنے گھروں کو واپس آنا شروع ہو گئے ہیں۔ لیکن ہر علاقہ تباہی کی ایک الگ داستان سنا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر سیلاب متاثرہ علاقوں کی ویڈیوز اور تصاویر شیئر کی جا رہی ہیں۔ جہاں ہری بھری فصلیں کھڑی تھیں وہاں اب ریت ہی ریت ہے۔ پانی اترنے کے بعد کئی کئی فٹ ریت جمع ہو گئی ہے جس کی وجہ سے زمینیں ناقابلِ کاشت ہو گئی ہیں۔
واپس آنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں نہ صرف اپنے گھروں کی تعمیر و مرمت کرنا ہو گی بلکہ کھیتوں سے کئی کئی فٹ ریت نکال کر زمین کو دوبارہ کاشت کے قابل بنانا ہوگا جس میں وقت بھی لگے گا اور پیسہ بھی۔
پنجاب کی صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے سربراہ عرفان علی کاٹھیا نے پیر کو بتایا ہے کہ نارووال، اوکاڑہ، قصور، بہاولپور اور بہاولنگر سمیت کئی علاقوں میں لوگ اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جلال پور پیروالا اور لیاقت پور کے دیہات میں پھنسے لوگوں کے لیے ریسکیو اور امدادی آپریشن بھی جاری ہے۔
پی ڈی ایم اے نے کہا ہے کہ دریائے راوی اور چناب میں پانی کا بہاؤ اب معمول کے مطابق ہے جب کہ ستلج میں پانی کا دباؤ کم ہو رہا ہے۔
پنجند کے مقام پر بھی پانی کی سطح میں کمی آ رہی ہے۔ پنجند وہ مقام ہے جہاں پنجاب کے پانچوں دریاؤں کا پانی مل کر ایک دریا کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ سیلابی ریلا اب دریائے سندھ میں داخل ہو چکا ہے اور گڈو اور سکھر بیراج کے مقام پر پانی کا دباؤ زیادہ ہے۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق پنجاب میں 4500 سے زیادہ دیہات میں سیلاب نے تباہی مچائی ہے اور 25 لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ جب کہ 100 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
پی ڈی ایم اے نے سیلاب زدہ علاقوں میں واپس آنے والوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ مقامی انتظامیہ کی ہدایات پر عمل کریں تاکہ انہیں حکومتی مدد مہیا کی جا سکے۔ اور اگر ان کا علاقہ ابھی غیر محفوظ ہے تو واپس نہ جائیں۔
پاکستان میں مون سون بارشوں اور سیلاب سے اس سال جون سے اب تک 950 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔