
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستانی حکام غیر قانونی طریقے سے شہریوں کی نگرانی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عام افراد، صحافیوں اور نامور سیاست دانوں کی بھی نگرانی کی جا رہی ہے۔‘
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنیسٹی انٹرنیشل نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستانی حکام مبینہ طور پر اپنے 40 لاکھ سے زیادہ شہریوں کی خفیہ نگرانی کر رہے ہیں۔ یہ بڑے پیمانے پر نگرانی کرنے والے ٹولز سے کی جا رہی ہے جو غیر ملکی کمپنیوں سے حاصل کیے گئے ہیں۔
منگل کو جاری ہونے والی رپورٹ ’شیڈوز آف کنٹرول: سینسر شپ اینڈ ماس سرویلینس ان پاکستان‘ میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستانی حکام غیر قانونی طریقے سے شہریوں کی نگرانی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عام افراد، صحافیوں اور نامور سیاست دانوں کی بھی نگرانی کی جا رہی ہے۔‘
ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستانی حکام آبادی کے ایک بڑے حصے کی نگرانی کے لیے مبینہ طور پر ’لا فل انٹرسیپٹ مینجمنٹ سسٹم (لِمز)‘ استعمال کر رہے ہیں۔ اس سسٹم کے ذریعے ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کے تعاون سے ان کی ڈیجیٹل سرگرمیوں پر نظر رکھی جا رہی ہے۔
ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے ٹیکنالوجسٹ جورے وان برج نے رائٹرز سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کے چاروں بڑے موبائل آپریٹرز کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ لِمز سسٹم سے کنیکٹ ہوں۔ جس کی وجہ سے ممکن ہے کہ جن فونز پر نظر رکھی جا رہی ہے وہ بتائی گئی تعداد سے بہت زیادہ بھی ہو سکتے ہیں۔
رپورٹ میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ٹیلی کمیونیکیشن پرووائیڈرز کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ یقینی بنائیں کہ ان کے دو فی صد کنزیومر کی نگرانی کی جا سکے۔
ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ حکام نے ’ڈبلیو ایم ایس 2.0‘ کے نام سے ایک فائروال بھی لگائی ہے جو انٹرنیٹ ٹریفک کا جائزہ لیتی ہے جس سے نگرانی کا نظام مزید مؤثر ہوتا ہے۔
لِمز کیا ہے؟
لمِز سسٹم ایک جرمن کمپنی ’الٹی میکو‘ فروخت کرتی ہے۔ یہ سسٹم انٹرنیٹ ٹریفک اور موبائل کمیونی کیشنز جیسے ٹیکسٹ میسجز اور وائس کالز کو الگ کرتا ہے اور پھر اس ڈیٹا کو محفوظ کر لیتا ہے تاکہ حکام اسے بعد میں دیکھ اور استعمال کر سکیں۔ یہ ٹیکنالوجی پاکستان میں 2007 سے استعمال کی جا رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق لِمز سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو ایک اور سسٹم کے ذریعے قابلِ رسائی بنایا جاتا ہے جس کا نام مانیٹرنگ سینٹر نیکسٹ جنریشن (ایم سی این جی) ہے۔ یہ سسٹم لمز سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو جانچتا ہے اور اس کے ذریعے آپریٹرز یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کسی شخص کو کس نے کال کی، کب کی، کون سی ویب سائٹس وزٹ کیں اور کیا کسی شخص نے واٹس ایپ یا وی پی این استعمال کیا اور اس شخص کی لوکیشن کیا تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس بڑے پیمانے پر نگرانی، جس پر کوئی چیک بھی نہیں ہے، کی بڑی وجہ یہ ہے کہ شہریوں کے اس ڈیٹا کو تحفظ دینے کے لیے کوئی قانونی یا تیکنیکی حفاظتی اقدامات نہیں ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں ٹیکنالوجی کا استعمال آزادی اور پرائیویسی کے حق کو محدود کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں ایک ’خوف کی فضا‘ پیدا ہو رہی ہے اور شہری آزادیوں کا دائرہ سکڑ رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے موجودہ ڈیٹا سسٹمز انتہائی سینٹرلائزڈ ہیں جس کے باعث شہری بڑے پیمانے پر نگرانی کا آسان ہدف بن جاتے ہیں۔ ادارے نے خبردار کیا کہ یہ دائرہ مزید وسیع ہوگا جب ڈیجیٹل نیشن پاکستان ایکٹ 2025 نافذ ہوگا۔ یہ قانون شہریوں کے لیے ڈیجیٹل شناخت بنانے اور ان کے سماجی، معاشی اور سرکاری ڈیٹا کو ایک جگہ جمع کرنے کا منصوبہ ہے۔
انٹرنیٹ سینسر شپ
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بڑے پیمانے پر نگرانی کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ سینسرشپ بھی کی جاتی ہے جو ویب مانیٹرنگ سسٹم کے ذریعے ممکن بنائی گئی ہے۔ اس کے تحت کسی خاص کانٹینٹ کو بلاک، انٹرنیٹ کی اسپیڈ کو کم یا مکمل طور پر انٹرنیٹ بند کیا جاتا ہے۔
ایمنسٹی نے کہا ہے کہ پاکستان میں ’قانون اور امن‘ کے نام پر موبائل اور انٹرنیٹ سروسز کو بند کرنا ایک معمول بن گیا ہے۔ ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیاہے کہ 2016 سے 2024 کے دوران پاکستان میں کم از کم 77 بار انٹرنیٹ بند کیا گیا جن میں سے صرف 2024 میں 24 بار انٹرنیٹ بند ہوا۔ بالخصوص 2024 کے عام انتخابات سے پہلے اور پی ٹی آئی کے ورچوئل جلسوں کے دوران۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حالیہ انٹرنیٹ کی پابندیوں کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدامات زیادہ تر احتجاج اور سیاسی جلسے روکنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
ایمنسٹی نے کہا کہ ’پاکستانی حکام کی جانب سے بڑے پیمانے پر نگرانی اور غیر قانونی سنسرشپ بنیادی انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں کی نمائندگی کرتی ہے‘۔
ادارے نے خبردار کیا کہ اگر اس ’بے قابو ڈیجیٹل جبر‘ کو نہ روکا گیا تو یہ پاکستان میں جمہوریت کے لیے مزید خطرات پیدا کرے گا۔